مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
by مضطر خیرآبادی

مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
تمہاری چاہ میں جینے کے لالے پڑتے جاتے ہیں

ادھر اس کی شرارت جس نے غم کی آگ سلگا دی
ادھر میرا کلیجہ جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں

مرے ان کے تعلق پر کوئی اب کچھ نہیں کہتا
خدا کا شکر سب کے منہ میں تالے پڑتے جاتے ہیں

غم ناکامیٔ کوشش سے حالت بگڑی جاتی ہے
کلیجے میں یہاں بے آگ چھالے پڑتے جاتے ہیں

ہمارا درد آہ دل مزا دیتا ہے اڑ اڑ کر
تمہارے چاند سے چہرے پہ ہالے پڑتے جاتے ہیں

مسیحا جا رہا ہے دوڑ کر آواز دو مضطرؔ
کہ دل کو دیکھتا جا جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse