مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں
by مجاز لکھنوی

مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں
مرے شباب کی قیمت ترا شباب نہیں

یہ ماہتاب نہیں ہے کہ آفتاب نہیں
سبھی ہے حسن مگر عشق کا جواب نہیں

مری نگاہ میں جلوے ہیں جلوے ہی جلوے
یہاں حجاب نہیں ہے یہاں نقاب نہیں

جنوں بھی حد سے سوا شوق بھی ہے حد سے سوا
یہ بات کیا ہے کہ میں مورد عتاب نہیں

یہاں تو حسن کا دل بھی ہے غم سے صد پارہ
میں کامیاب نہیں وہ بھی کامیاب نہیں

یہاں تو رات کی بیداریاں مسلم ہیں
مگر وہاں بھی حسیں انکھڑیوں میں خواب نہیں

نہ پوچھئے مری دنیا کو میری دنیا میں
خود آفتاب بھی ذرہ ہے آفتاب نہیں

سب ہی ہیں مے کدۂ دہر میں خرد والے
کوئی خراب نہیں ہے کوئی خراب نہیں

مجازؔ کس کو میں سمجھاؤں کوئی کیا سمجھے
کہ کامیاب محبت بھی کامیاب نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse