مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں
by آرزو لکھنوی

مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں
ہو اعتبار تو پھر تاب انتظار کہاں

دلوں میں فرق ہوا جب تو چاہ پیار کہاں
چمن چمن ہی نہیں آئے گی بہار کہاں

جسے یہ کہہ کے وہ ہنس دیں کہ قصہ اچھا ہے
وہ راز کھل کے بھی ہوتا ہے آشکار کہاں

امنگ تھی یہ جوانی کی یا کوئی آندھی
ملا کے خاک میں ہم کو گئی بہار کہاں

امیدوار بنانے سے مدعا کیا تھا
جب آس تم نے دلا دی تو اب قرار کہاں

ملی ہے اس لیے دو چار دن کی آزادی
کہ صرف کرتا ہے دیکھیں یہ اختیار کہاں

یہ شوق لے کے چلا ہے چمن سے شکل نسیم
کہ دیکھیں ملتی ہے جاتی ہوئی بہار کہاں

ہے ایک شرط وفا کی وہ قید بے زنجیر
سب اختیار ہیں اور کچھ بھی اختیار کہاں

مٹے نشاں پہ نظر کر کے رو جسے چاہے
ترے ستم کی ہے تربت مرا مزار کہاں

تم ایسا عہد شکن آرزوؔ سا ناامید
کہو جو سچ بھی تو آتا ہے اعتبار کہاں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse