مری شاکی ہے خود میری فغاں تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مری شاکی ہے خود میری فغاں تک
by جلالؔ لکھنوی

مری شاکی ہے خود میری فغاں تک
کہ تالو سے نہیں لگتی زباں تک

کوئی حسرت ہی لے آئے منا کر
مرے روٹھے ہوئے دل کو یہاں تک

جگہ کیا درد کی بھی چھین لے گا
جگر کا داغ پھیلے گا کہاں تک

اثر نالوں میں جو تھا وہ بھی کھویا
بہت پچھتائے جا کر آسماں تک

فلک تیرے جگر کے داغ ہیں ہم
مٹائے جا مٹانا ہے جہاں تک

وہ کیا پہلو میں بیٹھے اٹھ گئے کیا
نہ لیں جلدی میں دو اک چٹکیاں تک

کوئی مانگے تو آ کر منتظر ہے
لیے تھوڑی سی جان اک نیم جاں تک

اٹھانے سے اجل کے میں نہ اٹھتا
وہ آتے تو کبھی مجھ ناتواں تک

جلالؔ نالہ کش چپکا نہ ہوگا
وہ دے کر دیکھ لیں منہ میں زباں تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse