مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے
by نظام رامپوری

مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے
کہیں جڑتی ہے پھر کہیں ٹوٹتی ہے

یہ خو ہے تمہاری تو کیوں کر بنے گی
ادھر بنتی ہے تو ادھر ٹوٹتی ہے

نہ ہم پر ہنسو حال ہوتا ہے یہ ہی
مصیبت جو انسان پر ٹوٹتی ہے

سمجھتا ہوں کچھ میں بھی باتیں تمہاری
یہ ہر طعن کیا غیر پر ٹوٹتی ہے

خدا کے لیے پھر تو ایسا نہ کہنا
مری آس اے نامہ بر ٹوٹتی ہے

یہاں جس کے بے دیکھے جی ٹوٹتا ہے
وہاں اس کی ہر دم نظر ٹوٹتی ہے

غضب ہاتھاپائی کا ہے لطف ہوتا
کوئی ان کی چوڑی اگر ٹوٹتی ہے

عدو کا بھی تو گھر ہے اے چرخ ظالم
جو آفت ہے میرے ہی گھر ٹوٹتی ہے

تری بات کا کیا ہے عنوان قاصد
توقع ہماری مگر ٹوٹتی ہے

یہ غم ہے تو رونا بھی اپنا یہی ہے
یہ رونا ہے تو چشم تر ٹوٹتی ہے

یہ کہنا نظامؔ اب تو سونے دے مجھ کو
کوئی بیٹھے کب تک کمر ٹوٹتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse