مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
by نسیم دہلوی

مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے

کھڑے کب سے ہم سر راہ ہیں کہیں مر چکیں کہ تباہ ہیں
ہدف خدنگ نگاہ ہیں ذرا آنکھ ادھر بھی ملائیے

بھلا آنا آپ کا کام ہے یہ غلط تمام کلام ہے
اجی بس ہمارا سلام ہے کہیں اور باتیں بنائیے

تہ تیغ تیز ہے اک جہاں کوئی کشتہ ہے کوئی نیم جاں
جو نہ ہو دریغ تو مہرباں کوئی ہاتھ ادھر بھی لگائیے

کبھی مے سے منہ کو نہ موڑیئے ہوس شراب نہ چھوڑیئے
سر محتسب ہے نہ توڑیئے جو کمال گیت پر آئیے

یہ کمال لطف ہے ساقیا یہی ہے ہوس یہی مدعا
رہے ہوش سر نہ خیال پا اگر ایسی مے ہے تو لائیے

جو وفور چشم پر آب ہو تو جہان تختۂ آب ہو
ابھی نوح کا سا عذاب ہو اگر اشک چند بہائیے

وہ کہا عدو سے ہے میں نے کیا کہ ہوئے ہیں آپ جو یوں خفا
یہ غضب یہ جھوٹ یہ افترا مرے سامنے تو بلائیے

غزل ایسی کامل وزن سن متفاعلن متفاعلن
ہے نسیمؔ طاقت ہوش سن کوئی شعر اور سنائیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse