مری آنکھوں سے ظاہر خوں فشانی اب بھی ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مری آنکھوں سے ظاہر خوں فشانی اب بھی ہوتی ہے
by اختر شیرانی

مری آنکھوں سے ظاہر خوں فشانی اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے

سرور آرا شراب ارغوانی اب بھی ہوتی ہے
مرے قدموں میں دنیا کی جوانی اب بھی ہوتی ہے

کوئی جھونکا تو لاتی اے نسیم اطراف کنعاں تک
سواد مصر میں عنبر فشانی اب بھی ہوتی ہے

وہ شب کو مشک بو پردوں میں چھپ کر آ ہی جاتے ہیں
مرے خوابوں پر ان کی مہربانی اب بھی ہوتی ہے

کہیں سے ہاتھ آ جائے تو ہم کو بھی کوئی لا دے
سنا ہے اس جہاں میں شادمانی اب بھی ہوتی ہے

ہلال و بدر کے نقشے سبق دیتے ہیں انساں کو
کہ ناکامی بنائے کامرانی اب بھی ہوتی ہے

کہیں اغیار کے خوابوں میں چھپ چھپ کر نہ جاتے ہوں
وہ پہلو میں ہیں لیکن بدگمانی اب بھی ہوتی ہے

سمجھتا ہے شکست توبہ اشک توبہ کو زاہد
مری آنکھوں کی رنگت ارغوانی اب بھی ہوتی ہے

وہ برساتیں وہ باتیں وہ ملاقاتیں کہاں ہمدم
وطن کی رات ہونے کو سہانی اب بھی ہوتی ہے

خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

زباں ہی میں نہ ہو تاثیر تو میں کیا کروں ناصح
تری باتوں سے پیدا سرگرانی اب بھی ہوتی ہے

تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں میں اک رات گزری تھی
ستاروں کی زباں پر یہ کہانی اب بھی ہوتی ہے

پس توبہ بھی پی لیتے ہیں جام غنچہ و گل سے
بہاروں میں جنوں کی مہمانی اب بھی ہوتی ہے

کوئی خوش ہو مری مایوسیاں فریاد کرتی ہیں
الٰہی کیا جہاں میں شادمانی اب بھی ہوتی ہے

بتوں کو کر دیا تھا جس نے مجبور سخن اخترؔ
لبوں پر وہ نوائے آسمانی اب بھی ہوتی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse