مریض ہجر کو صحت سے اب تو کام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مریض ہجر کو صحت سے اب تو کام نہیں
by رجب علی بیگ سرور

مریض ہجر کو صحت سے اب تو کام نہیں
اگرچہ صبح کو یہ بچ گیا تو شام نہیں

رکھو یا نہ رکھو مرہم اس پہ ہم سمجھے
ہمارے زخم جدائی کو التیام نہیں

جگر کہیں ہے کہیں دل کہیں ہیں ہوش و حواس
فقط جدائی میں اس گھر کا انتظام نہیں

کوئی تو وحشی ہے کہتا کوئی ہے دیوانہ
بتوں کے عشق میں اپنا کچھ ایک نام نہیں

سحر جہاں ہوئی پھر شام واں نہیں ہوتی
بسان عمر رواں اپنا اک مقام نہیں

کیا جو وعدۂ شب اس نے دن پہاڑ ہوا
یہ دیکھیو مری شامت کہ ہوتی شام نہیں

وہی اٹھائے مجھے جس نے مجھ کو قتل کیا
کہ بہتر اس سے مرے خوں کا انتقام نہیں

اٹھایا داغ گل افسوس تم نے دل پہ سرورؔ
میں تم سے کہتا تھا گلشن کو کچھ قیام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse