مریض عشق کی جز مرگ دنیا میں دوا کیوں ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مریض عشق کی جز مرگ دنیا میں دوا کیوں ہو
by حکیم محمد اجمل خاں شیدا

مریض عشق کی جز مرگ دنیا میں دوا کیوں ہو
اگر جاں ہو عزیز اپنی تو جاناں پر فدا کیوں ہو

اٹھے جو آگ سینہ سے دبا دوں اس کو اشکوں سے
شب ہجراں میں نالہ سے مرا لب آشنا کیوں ہو

ملو خلوت میں اور دو تم مجھے درس شکیبائی
کرم تم میں نہ ہو تو دل مرا صبر آزما کیوں ہو

چلے جب تک زباں جاری ہو اس پر داستان غم
توانائی ترے بیمار کی صرف دعا کیوں ہو

بھلا تو اور گھر آئے مرے کیوں کر یقیں کر لوں
تخیل کیوں نہ ہو میرا تری آواز پا کیوں ہو

اگر بخت رسا نے رہبری کی تیری خلوت تک
تو پھر دست تمنا رہن دامان قبا کیوں ہو

مرے خوں اور حنا میں دیر سے باہم رقابت ہے
نہ ہو گر رنگ خوں پا میں تو پھر رنگ حنا کیوں ہو

قیامت ایک دن آئی ہے اس میں شک نہیں شیداؔ
کھڑا ہو بزم سے جب وہ قیامت پھر بپا کیوں ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse