مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا
by نسیم دہلوی

مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا
وہ قسم ہوں جو یار کھا نہ سکا

اس قدر ضعف تھا کہ تیرا ناز
تھی تمنا مگر اٹھا نہ سکا

مر کے ٹھنڈا کہیں نہ ہو جائے
اس لیے وہ مجھے جلا نہ سکا

بخل دیکھو تو میری تربت پر
ایک آنسو بھی وہ گرا نہ سکا

اٹھ نہ جائے رقیب محفل سے
مجھ کو پہلو میں وہ بٹھا نہ سکا

تھا جو اشک عزیز خاطر میں
دیدۂ تر مجھے بہا نہ سکا

حسن تیرا وہ ماہ تاباں تھا
ابر گیسو جسے چھپا نہ سکا

دار فانی مقام لغزش ہے
کوئی اپنا قدم جما نہ سکا

نہ ملا کوئی وقت تنہائی
حال دل یار کو سنا نہ سکا

جانتا تھا پڑے رہیں گے وہیں
اس لیے یار گھر بتا نہ سکا

نہ منا لڑ کے وہ بہت چاہا
ایسے بگڑے کہ پھر بنا نہ سکا

دیکھ کر بد دماغیاں ان کی
نامہ بر خط مرا پڑھا نہ سکا

کس طرح عرض مدعا کرتا
غیر کو پاس سے ہٹا نہ سکا

آرزو مند رہ گیا مجنوں
میرے آگے فروغ پا نہ سکا

کینہ شوق رقیب تھا اے دوست
کہ طبیعت سے تیری جا نہ سکا

کیا ندامت ہوئی ہے قاتل سے
ناز خنجر گلو اٹھا نہ سکا

خوف تھا غش انہیں نہ آ جائے
میں شگاف جگر دکھا نہ سکا

ناتواں تھا نسیمؔ اس درجہ
کہ وہ زنجیر پا ہلا نہ سکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse