مرگھٹ کی دیوی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرگھٹ کی دیوی
by ناصر نذیر فراق دہلوی

کس کا سراغ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آئینہ فرش شش جہتِ انتظار ہے

سوناڈیہ جگنا، میرا یک گاؤں ہے، جو بھگوان پور پرگنہ چین پور ضلع آرہ میں واقع ہے۔ یہ گاؤں ٹھیکہ پر دے دیا گیا ہے اور روپیہ وصول کرنے کی غرض سے مجھے ہر سال یہاں آنا پڑتا ہے۔ سونا ڈیہ، بھگوان پور سے تین میل ہے۔ میں داروغہ بلدیو نراین صاحب متوفی کے مکان پر قیام کرتا ہوں۔ داروغہ صاحب کی اولاد اور ان کے خاندان کے سب چھوٹے بڑے میرے ساتھ بہت ادب و لحاظ سے پیش آتے ہیں۔ شب کو جب میں کھانے پینے اور عشاء کی نماز سے فارغ ہوجاتا ہوں تو تُرنت پرشاد صاحب، داروغہ صاحب کے فرزند ارجمند وغیرہ سب مجھے آکر گھیر لیتے ہیں۔ اور میری ویدانت اور حکمت کی باتوں کو سن کر بہت لطف حاصل کرتے ہیں۔

چنانچہ آج اپریل کی دسویں شب کو کچھ آسیب او ربھوتوں کا ذکر چھڑا تو میں نے کہا، چنار ضلع مرزا پور میں میرے ایک دوست کرم فرما خواجہ سید حسین علی صاحب اپنے قصبہ کے رئیس زادہ ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ میں ضلع مین پوری میں جو کلکتہ کی طرف ایک مشہور مقام ہے، کوتوال تھا۔ ایک روز میں کوتوالی میں بیٹھا ہوا کام کر رہا تھا جو چندن پور کے چوکیدار نے آکر کہا، چندن پور کی حد میں ایک واقعہ ہوگیا ہے۔ آپ موقعہ پر تشریف لے چلئے۔ جب چوکیدار کوتوالی میں پہنچا تو اس وقت دن کے تین بجے تھے۔ چندن پور، کوتوالی سے چھ سات میل کے فاصلہ پر تھا۔ ایک جمعدار اور چار کانسٹبل فوراً چندن پور کو روانہ کئے اور ان سے کہا میں بھی آتا ہوں۔

میرا گھوڑا آٹھ سو روپیہ کی قیمت کا برق رفتار تھا۔ کچھ دیر بعد میں اس پر سوار ہوکر چلا۔ شام کے چار بج لئے تھے۔ میں تھوڑی دیر میں چندن پور کے قریب پہنچ گیا۔ راستہ تنگ تھا اور دور ویہ تھور کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ اس پگ ڈنڈی سے ادھر میں نے دیکھا کہ چند آدمی کھڑے ہیں اور نشیب میں ایک چتا بنی ہوئی ہے اور ایک لاش جلائی جاتی ہے۔ میں نے گھوڑا روک کر ان لوگوں سے پوچھا کہ کون مر گیا۔ لوگوں نے کہا فلاں برہمن کا لڑکا ہیضہ میں مبتلا ہوا اور چند ہی گھنٹہ میں مر گیا۔

ہمارے چندن پور میں آج کل ہیضہ کا زور ہے۔ اس نوجوان کی عمر بیس، اکیس سے زیادہ نہ تھی۔ میں سنتا ہوا چل دیا۔ موقع واردات پر پہنچا اور وہاں سے پلٹ کر چندن پور میں ٹھہرا اور معاملہ کی تفتیش کی۔ اور اپنے ساتھی کانسٹبلوں اور جمعدار سے کہا، تم چلو اور ڈاک بنگلہ میں ٹھیرو، اور کھانے پینے کا سامان گاؤں سے لیتے جاؤ۔ یہ لوگ ڈاک بنگلہ کو چنپت ہوئے اور میں چندن پور کے زمینداروں سے بات چیت میں لگ گیا۔ اور بیٹھے بیٹھے رات کے نو بجا دیے۔ چودھویں تاریخ چاند کی تھی اور برسات عنقریب ختم ہوچکی تھی۔ اس لئے چاندنی بہار دے رہی تھی۔ میں دس بجے رات کے چندن پور سے چلا۔

چاندنی کوسوں تک پھیل رہی تھی اور آنکھوں سے لے کر کلیجہ تک اس کی ٹھنڈک اتری چلی جاتی تھی۔ جب میں اس مرگھٹ کے قریب پہنچا، جہاں برہمن بچے کی لاش جلائی جاتی تھی، تو میں نے اپنے مرکب کو بے چین پایا۔ وہ تیزی کرنے لگااور چاہتا تھا کہ میں جلد نکل جاؤں۔ یکایک میری نظر اس نشیب تک گئی جہاں نوجوان پھونکا گیا تھا۔ تو میں نے دیکھا کہ اس نشیب کے کنارہ پر ایک عورت سفید پوش کھڑی ہے۔ اس کا لباس بہت ہی براق ہے۔ عورت کے سر کے بال بھونرا جیسے سیاہ ہیں۔ اس کا چہرہ آبداری اور حسن میں پور نماشی کے چاند کو مات دے رہا ہے۔ اس کے پاؤں جو ساڑی سے نکل رہے ہیں، وہ ستاروں کی طرح روشن ہیں۔ وہ عورت رستہ سے پیٹھ موڑے کھڑی ہے اور برہمن بچہ کی جلی ہوئی ہڈیوں کو غور سے دیکھ رہی ہے۔

میں نے اس عورت کے سراپا کو شوق کی نظر سے دیکھنا چاہا، اس لئے میں نے گھوڑے کی باگ روکی۔ مگر گھوڑا پارہ کی طرح تڑپنے لگا۔ عورت کے حسن و جمال کو دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ اس سے بات کروں۔ اور میں نے پکار کر کہا، بیوی تم کون ہو اور اس خطرناک جگہ تم کیوں کھڑی ہو۔ مگر عورت نے کچھ جواب نہ دیا۔ اسی طرح میں نے کئی بار اسے پکارا، اور اس نے دھیان نہ کیا۔ اب مجھے طیش آیا اور میں نے حکومت کے لہجہ میں کہا، تو بڑی ڈھیٹ ہے۔ کیوں نہیں بولتی۔ اس عورت کو اب بھی خبر نہ ہوئی اور اس مرے ہوئے برہمن کی چتا کو گھورتی رہی۔ اس عرصہ میں میرا گھوڑا بہت گھبرایا۔ ایک دفعہ وہ الف ہوگیا، اس کی آنکھیں ابل آئیں۔ اس کے نتھنوں اور منہ سے جھاگ اڑنے لگے۔ مجھے بھی ضد آپڑی اور میں نے چاہا، اس عورت کو پکڑ کر سزا دوں۔ اس لئے میں نے ہنٹر سنبھالا کہ مغرور عورت کے کولہوں پر ٹکاوں۔

مگر اب مجھے خیال ہوا کہ غالباً یہ عورت انسان نہیں ہے، بلکہ چڑیل یا بلا ہے۔ اس تصور کے آتے ہی میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں نے اپنے ہاتھ پاؤں میں منوں کا بوجھ پایا۔ اب مجھ میں اتنا سکت نہ رہا کہ گھوڑے کی باگ موڑوں، مگر میری کمزوری سے باگ ڈھیلی ہو چلی تھی۔ اس لئے گھوڑا شرارہ آتش بن گیا اور خود رستہ پر آکر دوڑنے لگا اور میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ جب میری آنکھیں کھلیں تو میں نے دیکھا۔ گھوڑا مجھے لے کر ڈاک بنگلہ پر پہنچ گیا ہے۔ جمعدار میرے پاس کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ کوتوال صاحب ہم یہاں سے وہ تماشہ دیکھ رہے تھے، جو آپ نے پاس سے دیکھا ہے۔ آپ نے غضب کیا کہ اس بلا کے سر پر پہنچ گئے۔ دیکھئے یہ چندن پور کا چوکیدار اس بلا کی نسبت کیا کہتا ہے۔

میں گھوڑے پر سے اتر کر آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ مگر اب تک میرا سانس ٹھکانہ نہ ہوا تھا اور دل دھڑک رہا تھا۔ چوکیدار نے ہاتھ باندھ کر کہا، حضور یہ عورت ہمارے مرگھٹ کی دیوی ہے۔ پچاس بر س سے میں اسے گاہے گاہے دیکھتا ہوں اور سو برس سے ہمارے چندن پور میں مشہور ہے کہ یہ عورت مرگھٹ کی داروغہ ہے اور بارہا نظر آئی ہے اور نظر آتی رہتی ہے۔ یہ خدا کو ہی معلوم ہے کہ یہ کوئی روح ہے یا جنیہ ہے یا کوئی بلا ہے۔ چونکہ یہ بات عجیب و غریب تھی اس لئے میں نے قلم بند کر دیا اوربذریعہ ڈاک اسے دلی بھیج دیا کہ میرے دوست میر قربان علی صاحب اسے اردوئے معلیٰ کا آویزۂ گوش کریں۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse