مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے
by جلیل مانکپوری

مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے
سو رہے ہیں پاؤں پھیلائے ہوئے آرام سے

اور تو مطلب نہیں کچھ ہم کو دور جام سے
ہاں عوض لیتا ہے ساقی گردش ایام سے

گرچہ ترک آشنائی کو زمانہ ہو گیا
لیکن اب تک چونک اٹھتے ہیں وہ میرے نام سے

اشتیاق مے کشی کچھ مے کشی سے کم نہیں
ہم تو ساقی مست ہو جاتے ہیں خالی جام سے

مے کدے کا راز پردے ہی میں رہنا خوب تھا
دیکھ ساقی شیشہ کچھ کہتا ہے تھک کر جام سے

زلف سنبل نکہت گل موج سبزہ موج آب
باغ میں کوئی جگہ خالی نہ دیکھی دام سے

ہم فقیر مے کدہ ساقی ہمیں کیا چاہیئے
ہے وہی کافی چھلک جاتی ہے جتنی جام سے

بے نشاں تجھ کو سمجھ کر صبر آ جاتا مجھے
پر یہ مشکل ہے کہ میں واقف ہوں تیرے نام سے

کیا خدا کی شان ہے جن کا وظیفہ تھا جلیلؔ
آج وہ کہتے ہیں میں واقف نہیں اس نام سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse