مرنا تو بہتر ہے جو مر جائیے
Appearance
مرنا تو بہتر ہے جو مر جائیے
جی سے کسی کے نہ اتر جائیے
قتل تو کرتا نہیں وہ کس طرح
اس کے گناہ گار ٹھہر جائیے
کیا لکھوں طاقت نہیں اے نامہ بر
مرنے ہی کی لے کے خبر جائیے
آئے ہو گر یاں تلک اے مہرباں
بیٹھے کوئی دم تو ٹھہر جائیے
سوئے حرم یا طرف بت کدہ
الغرض اے شیخ جدھر جائیے
دونوں جگہ جلوہ گہہ یار ہے
خواہ ادھر خواہ ادھر جائیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |