مرقع زبان و بیان دہلی/چلتی بہار یعنی مغلیہ خاندان کے جشن کا اخیر دربار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

چلتی بہار یعنی مغلیہ خاندان کے جشن کا اخیر دربار


آج کے روز امیر امرا نقار خانہ کے دروازہ سے اتر کر پیدل دیوان عام میں آتے تھے اور یہ پہلی آداب گاہ کہلاتی تھی۔ دیوانِ عام کے جالی دار دروازے میں موٹی موٹی لوہے کی زنجیریں آڑی پڑی ہوئی تھیں تاکہ آدمی سیدھا نہ جا سکے۔ سب جھک کر زنجیر کے نیچے سے نکل جاتے تھے، یہ دوسری آداب گاہ کہلاتی تھی۔ دیوان خاص کے دروازے پر ایک بڑا سا بانات کا لال پردہ کھنچاہوا ہوتا تھا جسے لال پردے کے نام سے سے موسوم کرتے تھے۔ مِردھے، پیادے، دربان، سپاہی، قُلار ہاتھوں میں لال لال لکڑیاں لیے ہوئے کھڑے ہوتے تھے۔ جو کوئی غیر آدمی اندر جانے کا ارادہ کرتا تھا تو قلار وہی آنکڑے دار لال لکڑی گردن میں ڈال کھینچ کر باہر نکال دیتے تھے۔ مگر جشن کے دن حکم عام تھا کہ جس کا جی چاہے پگڑی باندھ کر چلا آئے، دربار کی سیر دیکھے۔ درباری لال پردے کے پاس کھڑے ہوکر مجرا کر کے کہ یہ تیسری آداب گاہ تھی، دیوان خاص میں تخت کے سامنے آداب بجا لا کر اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوجاتے تھے۔ دیوان خاص میں فرش فروش، باناتی پردے کھنچے ہوئے ہوتے تھے۔ بیچوں بیچ میں سنگ مرمر کے ہشت پہلو چبوترے پر نقلی تخت طاؤس رکھا ہوا ہوتا تھا اور اس کے آگے دلدا پیشگیر کھنچا ہوا۔ یہ تخت نہایت خوشنما اور خوبصورت بنا ہوا ہوتا تھا، جس کے چاروں طرف تین تین در نہایت خوشنما محرابوں کے بنے ہوتے تھے۔ گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں اور بنگلہ نما گول چھت، محراب دار۔اس پر سونے کی کلسیاں۔ سامنے محراب پر دو مور آمنے سامنے موتیوں کی تسبیح منہ میں لیے ہوئے کھڑے نظر آتے تھے۔ تخت سر سے پاؤں تک سونے میں لپا ہوا جگمگاتا تھا۔ بیچ میں رومی مخمل اور زربفت کا مسند تکیہ لگا ہوا ہوتا تھا۔ دو خواص ہما کے مور چھل لیے اہلو پہلو میں کھڑے ہوتے تھے۔ پیچھے ایک جا نماز بچھائی جاتی تھی۔ معتبر الدولہ، اعتبار الملک بہادر وزیر، عمدۃ الحکماء حاذق زماں، احترام الدولہ بہادر طبیب خاص، شمس الدولہ بہادر بخشی، معین الدولہ بہادر ناظر، سیف الدولہ بہادر وکیل، سحبانِ زماں نجم الدولہ بہادر بادشاہی شاعر، میر منشی دارالانشاءِ سلطانی، میر تزک وغیرہ وغیرہ اپنے اپنے مرتبہ اور قاعدہ سے دونوں ہاتھ جریب پر رکھے دائیں بائیں کھڑے ہوجاتے تھے۔ مردھے، نقیب، چوبدار، عرض بیگی سامنے آداب گاہ کے پاس کھڑے رہتے تھے۔دیوان خاص کے آگے صحن میں ایک طرف خاصے گھوڑے چاندی سونے کے ساز سے لدے ہوئے، ایک طرف مولابخش، خورشید گج، چاند مورت ہاتھی وغیرہ رنگے ہوئے ہاتھوں پر فولاد کی ڈھالیں، سونے کے پھول جڑے ہوئے، کانوں میں ریشم اور کلابتون کے گپھے اور لڑیاں کار چوبی جھولیں پڑی ہوئیں۔ ایک طرف ماہی مراتب، چتر نشان، روشن چوکی والے، جھنڈیوں والے، ڈھلیت پرا جما کر کھڑے ہو جاتے تھے۔اسی طرح قلار چاندی کے شیر دہاں سونٹے، خاص بردار بندوقیں لیے ہوئے کٹہرے کے نیچے استادہ ہوتے تھے۔ دیوان عام کے میدان میں ساری پلٹنیں جم جاتی تھیں۔ احتشام توپ خانہ کی توپیں کھڑی کر دی جاتی تھیں۔ اندر سے جسولنی آواز دیتی تھی “خبردار ہو”۔ نقیب، چوب دار جواب دیتے تھے کہ “اللہ رسول خبردار ہے”۔ اب بادشاہ سلامت برآمد ہوتے تھے۔ نقیب چوبدار بآواز بلند پکارتے تھے “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ رسول کی امان، دوست شاد دشمن پائمال، بلائیں رد”۔ اس وقت کہار شاہی کہاریوں سے جھٹ ہوادار لے لیتے تھے۔ پہلے بادشاہ تخت کے نیچے اتر کر نماز کی دو رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھتے، دعا مانگتے۔ پھر ہوادار میں سوار ہو جاتے۔ کہار شاہی ہوادار کو تخت طاؤس کے برابر لگا دیتے۔ بادشاہ تخت پر جلوس فرماتے۔ جھنڈیاں ہلتے ہی دنادن توپیں چلنے لگتیں۔ سب فوج سلامی اتارتی اور شادیانے بجنے لگتے۔ گوہرِ اکلیل السلطنت ، مہیں پورِ خلافت، ولی عہد بہادر تخت کے بائیں طرف اور دیگر شہزادگانِ نامدار والاتبار، قرّہ باصرۂ خلافت، غرّہ ناصیۂ سلطنت دائیں جانب تخت کے برابر امیر امرا کے آگے کھڑے ہو جاتے۔ سب سے پہلے ولی عہد نذر دینے کھڑے ہوتے۔ اول آداب گاہ پر آکر مجرا بجالاتے۔ نقیب پکار کر کہتا “جہاں پناہ بادشاہ سلامت! عالم پناہ بادشاہ سلامت! مہابلی بادشاہ سلامت!” مجرا کر کے بادشاہ کو نذر دیتے۔ بادشاہ نذر لے کر نذر نثار کو دے دیتے۔ پھر الٹے پاؤں آداب گاہ پر آتے۔ مجرا کرکے خلعت پہنتے۔ جیغہ، سر پیچ، گوشوارہ بادشاہ اپنے دست مبارک سے ولی عہد بہادر کے سر پر لگاتے۔ موتی مالا، سِپر، تلوار گلے میں ڈال دیتے۔ یہ اُسی طرح آداب گاہ پر الٹے پاؤں آ کر آداب بجالاتے، خلعتی نذر دیتے۔ پھر الٹے ہی پاؤں آداب گاہ پر آکر مجرے کو کھڑے ہوجاتے۔ اور اسی طرح دیگر شہزادے، تمام امیر امرا اپنے اپنے رتبہ سے نذریں گزرانتے۔ جواہر خانہ میں سے خلعت پہن کر آتے۔ بادشاہ اپنے ہاتھ سے شاہزادگان کے سر پر جیغہ، سر پیچ، گوشوارہ اور معزز امیروں کے سر پر صرف گوشوارہ باندھ دیتے تھے اور آداب پر آداب، مجرے پر مجرے۔ نقیب چوبدار پکار پکار کر کہتے “ملاحظہ آداب سے کرو، مجرا، جہاں پناہ بادشاہ سلامت، عالم پناہ بادشاہ سلامت، مہابلی بادشاہ سلامت”۔ اس وقت بادشاہ تکیہ سرکا کر فاتحہ کو ہاتھ اٹھاتے۔ عرض بیگی پکارتا “دربار برخاست”۔ بادشاہ ہوادار پر سوار ہو محل میں درآمد ہوتے۔ سب لوگ رخصت ہوجاتے۔ چالیس دن تک روز دربار اور خلعت اور نذریں ہوتیں۔ انعام و اکرام سب کارخانوں کے داروغاؤں اور آدمیوں کو ان کی حیثیت کے موافق دیا جاتا اور اس کے بعد محل کا دربار شروع ہو جاتا۔