Jump to content

مرقع زبان و بیان دہلی/پوشاک

From Wikisource

پوشاک


پوشاک کی یہ دھاک تھی کہ ہر فردِ بشر خود جامہ زیب بن جاتا تھا۔ اپنی شکل و شباہت، تن و توش اور جسامت کے موافق نرالی سج دھج نکال کر اپنے بدن پر لباس موزوں کرلیتا تھا۔ اگر نوجوان ہے تو ایک ایک ٹانکے پر جوانی و طرّاری برستی ہے اور جو بوڑھا ہے تو اس کی ہر قطع و بُرید سے پیری اور سادگی ٹپکتی ہے۔ بانکوں کا بانکپن، چھیلاؤں کا چھیلاپن، ملاؤں کا ملّانہ پن، پہلوانوں کی پہلوانی، شہدوں کا شہدہ پن، اجلافوں کا اجلاف پن، رذالوں کی رذالت ان کی پوشاک و تراش خراش سے خود ظاہر اور شاہدِ حال ہوتی تھی۔ شریفوں کی جس پوشاک کو رذیل اختیار کرتے تھے، شریف اسے یا تو چھوڑ دیتے یا اس میں کچھ نہ کچھ فرق کر دیتے تھے۔ شریفوں میں پہلے اونچی چولی کے انگرکھوں کا رواج تھا، جب ڈوموں، میراثیوں نے یہ وضع اختیار کی تو شریف نیچی چولیاں یہاں تک کہ تابناف بڑھا کر پہننے لگے۔ ڈوموں نے نیچے دامن کا رواج دیا تو شریفوں نے اونچے دامن رکھے۔ دو پلڑی ٹوپیوں کا دستور عام تھا۔ مگر چوگوشی، مغلئی، تاجدار، پچگوشی ٹوپیاں مغل بچے اور شریف زادے پہنتے تھے۔ دہلی کے بانکوں، البیلوں اور وضعداروں کی کج کلاہی مشہور تھی۔ چنانچہ امیر خسروؒ نے بھی کج کلاہی کی بہت تعریف اپنی غزلوں میں باندھی ہے اور اخیر میر تقی میر نے بھی ان کج کلاہوں کو نادر شاہی سفاک خونریز قزلباشوں سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ یہ قطعہ مشہور ہے:

دہلی کے کج کلاہ لڑکوں نے

کوئی عاشق نظر نہیں آتا


کام عشّاق کا تمام کیا

ٹوپی(١٢) والوں نے قتل عام کیا

مندیلیں، بنارسی دو پٹّے، گولے دار پگڑیاں مسلمانوں میں مروّج تھیں۔ صافے سپاہیوں میں۔ قلعہ معلیٰ میں پگڑی بغیر کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ درباری لوگ جامہ بھی پہنا کرتے تھے۔ امرا جِیغہ، سرپیچ اور شہزادے کلغیاں بھی لگاتے تھے۔ صاحبانِ ہنود میں جامہ کا زیادہ دستور تھا۔ اور پھر نیمہ یعنی نیم جامہ اور الٹی چولی کے انگرکھے کا رواج ہوا۔ مسلمانوں میں الخالق،بالابر، شیروانی، اچکن، انگرکھے، قبا، عبا،جبّہ، چغہ، مرزئی پوستینوں وغیرہ کا حسب موسم دستور تھا۔ ڈھاکہ کی ململ، لکھنؤ کی شربتی، سونی پت کا سَینوں، بنارس کا مشروع، دیسی سوتی کپڑے میں اول نمبر رکھتا تھا۔ پُھہار دار نینوں بھی کرتوں کے کام میں آتا تھا۔ پاجامے یا تو تنگ موری کے یا ایک برکے یا غرارے دار اکثر پہنے جاتے تھے۔ آڑے پاجاموں کا کوئی نام تک نہ جانتا تھا، یہ پنجاب کا تحفہ ہے۔ مُلّانے اُٹنگے یا ٹخنوں سے اونچے پاجاموں، خواہ تہبندوں سے زیادہ رغبت رکھتے تھے۔ امیر مشروع کے، غریب سونی پت کے سینوں اور نینوں کے جھابڑ جِھلّے کرتے پہنا کرتے تھے۔ ہمارے زمانہ میں کوٹ پتلون نے سب کو یکساں کر دیا۔ مہتر سے لے کر کہتر اور چمار تک اس لباس سے ملبوس نظر آتا ہے۔ لمبی لمبی عقربی مونچھوں، مُنڈی ڈاڑھیوں نے ہندو مسلمان کی شناخت بالائے طاق رکھ دی۔ غدر سے پہلے گھیتلے جوتے، کف پائی، کفش یا گول پنجے کے جوتوں کا زیادہ رواج تھا مگر جب سے مرزا سلیم خلف اکبر شاہ ثانی نے لمبے پنجے کی سلیم شاہی جوتی ایجاد کی، اسے زیادہ پہننے لگے اور آج تک پرانے فیشن والے اسی کو پہنے جاتے ہیں۔ مگر زمانے کی رفتار پر چلنے والوں نے بوٹ، گُرگابی،شوز، پمپ، سلیپر وغیرہ پہننے میں سبقت کر لی۔