مرقع زبان و بیان دہلی/قوتِ ایجاد و تقلید

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ایجاد و تقلید میں اس شہر کے رہنے والوں کی قوت طبع، رسائی ذہن سب سے زیادہ اور نرالی تھی۔ اگر مغل بننا چاہتے تھے تو کابلی، فارسی کو اس لہجہ اور خوبی سے ادا کرتے تھے کہ وہاں کے ولایتی ان کی صحتِ زبان و لب لہجہ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے۔ چنانچہ مشہور ہے کہ نادر گردی کے موقع پر یہاں کے نقّالوں اور بھانڈوں نے نادر کے چلے جانے کے بعد نادر شاہی سرداروں، فوجی افسروں، قزلباشوں کی نقلیں مجالسِ سور و سرور میں روپ بھر بھر کر ایسی دکھائیں کہ اوروں سے بن نہ آئیں۔ سب دھوکا کھا گئے۔ غرض اگر عرب بننے کا ارادہ کرتے تو اہل عرب کو حیرت میں ڈال دیتے تھے۔ عربی جبّہ و عمامہ، دستار و گفتار بلکہ رفتار میں دھوئے دھائے عرب معلوم ہوتے تھے۔ تعال يا شيخ اهلاً و سهلاً۔ مرحبا في عين الله۔ صبحكم الله بالخير ان کا تکیہ کلام تھا، قال الله، قال الرسول وظیفہ دوام۔ اگر چہ انگریزی میں بھی یہی حال تھا کہ انگلستانیوں کو پرے بٹھاتے تھے مگر اپنے چہرے کی رنگت سے ناچار تھے۔ اگر کوئی شخص پردے میں بٹھا کر انگریزی زبان سنے تو بیشک ولایت زاد کہتے بنے۔ ماسٹر وزیر علی مرحوم کو ہم نے بھی دیکھا اور ان کی زبان سے انگریزی لب و لہجہ سنا تھا۔ ادائے الفاظ میں تمام حرکات و سکنات ہو بہو یورپینوں سے ملتی جلتی تھیں۔ جس حالت میں عربی، فارسی، انگریزی کا یہ حال ہو تو پوربی، پنجابی، کشمیری، مارواڑی، بنگالی وغیرہ کس شمار میں ہیں۔ مگر نہیں پھر بھی جو مادری زبان کا لہجہ ہے اس میں غلطی ممکن تھی، پنجاب کی ہائے مخلوط، پورب کی ہائے مختفی مشکل ہی سے ادا ہوتی تھی۔ قوت ایجاد کا یہ عالم تھا کہ مروّجہ زبانوں کے علاوہ چند مفروضہ سب سے جدا شیریں زبانیں اختراع کرکے یہاں کے لڑکے بالے، لڑکی بالیاں، نوجوان باہم گفتگو کرلیا کرتے تھے، جن سے ناواقف اور اجنبی متعجب ہو کر منہ دیکھتے رہ جاتے تھے اور جو کچھ چاہتے تھے آپس میں صلاح و مشورہ کر لیتے تھے۔ یہ سلسلہ کسی قدر غدر کے بعد بھی جاری رہا۔ مگر اب اس کی بجائے انجانوں کے سامنے انگریزی سے کام لیا جاتا ہے۔

اُن مخترع زبانوں میں زیادہ تر مفصلۂ ذیل زبانوں کا رواج تھا۔ مثلاً زرگری کہ یہ کسی شہر یا ملک کی زبان نہیں ہے۔ صرف حروف تہجی کے دو دو حرفوں کے درمیان زائے معجمہ زیادہ کرتے جاتے تھے۔ زبان مقلوب،اس میں ہر ایک لفظ کو الٹ کر کہتے اور سیدھا سمجھتے تھے۔ زبان کشٹولی، ہر ایک کلمہ کے اولین حرف کے نام کے بعد (کشٹولی تین، پلاشہ) لگا کے دوسرے حرف پر کشٹولی ماشہ لگا دیتے تھے۔ بکنی یہ بولی حضرت شاہ عالم بادشاہ کے ایام طفولیت کی یادگار تھی۔ اس میں دو حرفوں کے درمیان لفظ بکنی ضرور لاتے تھے۔ جیسے کبکنا، لپکنی، کپکنی یعنی کالپی۔

غرض اسی طرح تمام حروف تہجی کی بولیاں بنا رکھی تھیں۔ ان کے علاوہ فرفری، سرسری، چھپر، کھپریل اور ٹکے وغیرہ کی بولیاں بھی رائج تھیں۔

علی ہذا دہلی کے صنّاع دستکار، اہل حرفہ، ایجاد و تقلید میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور اب بھی یہی حال ہے۔ خانم کا بازار غدر سے پہلے یونان کا طبقہ کہلاتا تھا۔ وہاں کے کاریگر خدا داد ذہن، طبع رسا رکھتے اور لقمان کو عقل سکھاتے تھے۔