مرقع زبان و بیان دہلی/عالم ہمہ افسانۂ مادارد و ما ہیچ
عالم ہمہ افسانۂ مادارد و ما ہیچ
اس ہیچمدان، ہیچ میرز سید احمد دہلوی مؤلف فرہنگ آصفیہ کی نسبت جو ہمارے مخدوم و مکرم، بالغ نظر، صائبِ رائے عالی جناب فضیلت مآب خان بہادر مولوی سید اکبر حسین صاحب اکبرؔ سابق جج الہ آباد حال پنشز نے ایک کارڈ مورخہ 8؍ اکتوبر اور ایک مکرمت نامہ محررہ 11؍ اکتوبر 1915ء میں اپنے حسن ظن سے آسمان پر چڑھا دینے والے دو ایک فقرے تحریر فرمائے ہیں۔ وہ ازروئے فخر اس موقع پر ٹکسالی سند سمجھ کر تیمناً و تبرکاً درج رسالہ ہذا کیے جاتے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں:
الہ آباد۔ 8؍ اکتوبر 1915ء
جناب من! اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہیں۔ خطیب میں آپ کا مضمون جو نکلا ہے، عقل بھی سکھاتا ہے اور زبان بھی، فقط۔ آپ کا نیاز مند سید اکبر حسین
الہ آباد۔ 11؍ اکتوبر 1915ء
مخدومی و مکرمی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ اخبار مطلوبہ واپس کرتا ہوں۔ آپ کے مضامین بہت اچھے اور نہایت دانشمندانہ ہیں۔ نہ صرف دانشمندانہ بلکہ رئیسانہ و شریفانہ۔ دلّی کی عزت آپ کے دم سے ہے۔ کم سے کم ان آنکھوں میں جو میرے سر میں ہیں۔
امید ہے کہ آپ صحت و عافیت سے ہوں گے۔ میں اچھا نہیں ہوں۔ موت تو اکثر ناگوار ہی ہوتی ہے۔ لیکن بلحاظِ حالاتِ موجودہ مجھ پر زندگی بار ہے فقط۔ نیاز مند سید اکبر حسین۔
الہ آباد۔ مکرمی میں 12؍ مارچ 1916ء سے علیل ہوں۔ اسی سبب سے ارادہ سفر دہلی کا ملتوی ہو گیا۔ اچھا ہو گیا اور موسم زیادہ سخت نہ ہوا تو غالباً حاضر ہوں۔ یہ کتاب بہت مفید ہے۔ یادگارِ زبان و مراسمِ دہلی ہے۔ کون ہے جو اس کی قدر نہ کرے۔ فقط۔ سید اکبر حسین
تقریظ رسالہ نذر آصف
از مبصر زبان اردو، صراف دار الضربِ لسان ریختہ، نثار و انشا پرداز بے مثل، ناظم و شاعر بے بدل منشی میر نثار علی صاحب شہرتؔ جوائنٹ ایڈیٹر رسالہ مخزن لاہور
یہ ایک مختصر رسالہ ہے جسے مرقع زبان و بیان دہلی کہنا چاہیے، ہماری نظر سے گزرا۔ اس کی دلچسپی کے باعث بغیر پڑھے ہاتھ سے چھوڑنے کو جی نہ چاہا:
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجا ست
در حقیقت اگر یہ رسالہ جو حضور نظام کی فیاضی کی بدولت بطور شکریہ چھاپا گیا ہے، نہ لکھا جاتا تو اردو زبان کے متعلق ایک بہت بڑی معلومات رہ جاتی۔ محققان زبان کے واسطے اعلیٰ درجہ کا سرمایہ اور مورّخان اردو کے لیے گہری معلومات کا ذخیرہ ہے۔ صرف زبان ہی کے واسطے نہیں بلکہ اور بھی اس ضمن میں جو کچھ اذکار آ گئے ہیں، وہ بھی یاد کر لینے اور اکثر موقعوں پر حوالہ دینے کے لیے نہایت کار آمد ہیں۔
اس میں مصنف نے سب سے اول 1857ء سے پیشتر کی اہل قلعہ اور اہل شہر کی زبان کا فرق بتا کر ذکور و اناث کے خاص الخاص محاورات پر بحث کی ہے۔ بعد ازاں موجودہ زبان اور آئندہ اس کے انقلاب کی صورت سے تقسیم ارشدی دکھائی ہے۔ اس بحث کو ختم کر کے زبان کی تمیز اور اس کا مدعا ظاہر کیا ہے۔ اس کے بعد ایک موقع نکال کر سابق اہل دہلی کی طباعی، ذہن کی رسائی، شریفوں کے شغل، گئی گزری سلطنت کے کھیل تماشے، چلتی بہار یعنی تیمور شاہی اٹھتے جشن کا دربار، جھروکوں کی زنانہ اور بیگماتی زبان کی آخری جھلک دکھا کر رسالہ کو ختم کر دیا ہے۔ جن لوگوں کو اردو زبان کی لگن، اس کے قیام سے پوری پوری دلبستگی اور حصول معلومات کا تعشق ہے وہ ضرور اسے جان کی برابر لگا کر رکھیں اور آئندہ نسل کے واسطے اپنی اس خاندانی زبان کا ورثہ چھوڑ جائیں۔
شکریہ گورنمنٹ و ارباب اولو الالباب
اس نذر کو حضور وائسرائے، لفٹنٹ گورنر پنجاب صاحب، چیف کمشنر بہادر صوبہ دہلی آنریبل مسٹر طامسن صاحب بہادر ریونیوسکرٹری گورنمنٹ پنجاب کی قبولیت اور وعدہ مطالعہ کا فخر حاصل ہونے کے علاوہ واجب التعظیم بزرگانِ ذیل کی مختصر رایوں کا بھی جو بطور رسید وصول ہوئیں، شرف حاصل ہوا ہے۔ مگر گورنمنٹ پنجاب کا دو سو نواسی (289) رسالوں کی خریداری فرمانا شکریہ بالائے شکریہ بجا لانے کا مستحق ہے۔
تازہ خلاصہ آرائے بزرگانِ ہند
نقل نامی گرامی علامہ فہامی عالیجناب نواب حاجی محمد اسحاق خان صاحب بہادر آنریری سکرٹری محمڈن کالج علی گڈھ صدر دفتر تکمیل مسلم یونیورسٹی خط نمبر449٠، مورخہ 4؍ مارچ ١٩١٦ء
مخدوم و مکرم بندہ جناب خان صاحب مولوی سید احمد صاحب دہلوی سلامت۔ سلام مسنون!
آپ کا گرامی عطیہ رسالہ نذر آصف یعنی مرقع زبان وبیان دہلی پہنچا۔ جس کے مطالعہ سے بہت ہی محظوظ ہوا۔ یہ نہایت مشکل ہے کہ اس رسالہ کو کوئی دیکھنا شروع کرے اور بغیر ختم کیے چھوڑے۔ اس رسالہ کے ذریعہ سے زبان اردو کی جو آپ نے قابل قدر خدمت کی ہے اور جس شیریں بیانی کے ساتھ کی ہے، اس کی داد تو زبان داں لوگ ہی آپ کو دے سکیں گے ۔ میں تو صرف آپ کا شکریہ ادا کر سکتا ہوں کہ آپ نے توجہ فرما کر مجھے اپنے حسن بیان سے مستفیض ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔ والسلام فقط
خاکسار محمد اسحاق خان عفی عنہ آنریری سیکرٹری محمڈن کالج
نقل خط عالی جناب خلیفہ عماد الدین صاحب بی اے انسپکٹر مدارس حلقہ راولپنڈی
راولپنڈی 10؍ مارچ 1916ء
مخدوم و مکرم جناب خانصاحب زاد لطفہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یاد آوری کا شکریہ۔ مرقع زبان وبیان دہلی مجھے گزشتہ ہفتہ موصول ہوا تھا۔ واقعی یہ آپ کا ہی حصہ ہے کہ جس مضمون کو آپ لیتے ہیں، اسے اس خوبی سے نباہتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ باتیں تو پرانی ہیں، مگر انداز نیا ہے اور آپ نے انھیں کتاب کی صورت میں جمع کرکے دنیا کے صفحہ سے مٹ جانے سے بچالیا ہے، جزاک اللہ ۔ والسلام فقط۔ خلیفہ عماد الدین عفی عنہ
نقل خط عالی جناب مولوی سید غلام بھیک صاحب نیرنگ گورنمنٹ ایڈوکیٹ انبالہ 24؍ فروری 1916ء
مکرم و محترم حضرت مولانا دامت برکاتکم۔ بعد تسلیمات مسنونہ گزارش ہے تحفہ گراں قدر یعنی نسخہ نذر آصف مرسلہ آں مخدوم باعث صد فخر و ناز ہوا۔ واقعی یہ گرانمایہ ہدیہ ایسے عالی جاہ ولی نعمت کے پیشکش کرنے کی قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے۔ آپ کی ذات سے جو خدمات زبان اردو کی ہوئی ہیں وہ ہمیشہ زبان کی تاریخ میں یادگار رہیں گی ۔ دہلی اور اہل دہلی کے لیے آپ کا وجود سرمایہ ناز ہے۔ زیادہ نیاز۔ فقط۔
راقم بندہ غلام بھیک نیرنگ وکیل از شہر انبالا
نقل خط عالی جناب خلیفہ سید حامد حسین صاحب وزیر مال ریاست پٹیالہ
جناب مولوی سید احمد صاحب۔ تسلیم
رسالہ نذر آصف یعنی مرقع زبان و بیان دہلی اور آپ کے عنایت نامہ کا شکریہ عرض کرتا ہوں۔ یہ رسالہ میں نے نہایت دلچسپی سے پڑھا۔ خدا آپ کو اس تصنیفات کے لیے جو سوائے آپ کے اب کسی کے قلم سے نہیں نکل سکتیں اور زبان اُردو کے عہد زریں کی یادگار قائم رکھنے کے لیے تادیر زندہ و سلامت رکھے۔ زیادہ نیاز
خاکسار سید حامد حسین پٹیالہ 6 مئی ١٩١٦ء
نقل کارڈ عالی جناب منشی درگا پرشاد صاحب نادرؔ گورنمنٹ پنشنر سابق ہیڈ ایگزیمز گورنمنٹ بک ڈپو پنجاب، مؤلف تذکرہ شعرائے دکن، تذکرة النساء، رسالہ قوافی، نکات الحساب وغیرہ وغیرہ۔ 5 مارچ 1916ء
مشفقا! آپ کا عطیہ مرقع زبان و بیان دہلی میرے پاس آیا۔ اول سے آخر تک ایک دفعہ بنظر سرسری دیکھا۔ شاہی زمانہ جو دیکھا بھالا تھا، آنکھوں کے آگے ہو بہو دکھائی دے گیا۔ سبحان اللہ کیا کہنا ہے۔ اس کام کے لائق تمھیں ہو جو اس قدر لکھ دیا۔ ورنہ اب کون ان باتوں کو جانتا ہے۔ خیر یہ بھی آپ کی ایک عمدہ یادگار رہے گی۔ فقط
درگا پرشاد نادرؔ
رسید بطور ریویو نگاشتہ قلم صداقت رقم جناب مولوی عبد الحق صاحب بی اے سکرٹری انجمن ترقی اردو، انسپکٹر مدارس اورنگ آباد، علاقہ حیدرآباد دکن۔ کیمپ سوجنی 5 اپریل 1916ء
مخدومِ بندہ تسلیم۔ آپ کا رسالہ نذر آصف یعنی مرقع زبان و بیان دہلی وصول ہوا جس کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے اس میں زبان کے متعلق جو نکات بیان فرمائے ہیں وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ یہ باتیں بس آپ ہی کے دم تک ہیں۔ خدا آپ کی عمر و ہمت میں برکت دے۔
نیازمند عبد الحق بی۔اے
خلاصہ تقریظ از رسالہ مخزن بابت اپریل 1916ء
رسالہ نذر آصف یعنی مرقع زبان و بیان دہلی
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارے دوست (خان صاحب) سید احمد صاحب مصنف فرہنگ آصفیہ و ارمغان دہلی وغیرہ وغیرہ کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ زبان اردو کو نہ فقط زندہ کریں، بلکہ اس کو بنا سنوار کر زبانوں کی مجلس میں لابٹھا دیں۔ایک ایسی حالت میں جبکہ بے کس اردو کا کوئی والی وارث نہیں رہا تھا۔ آپ نے اول ایک ضخیم کتاب ارمغان دہلی لکھی:
لغاتِ ارمغاں لکھتے ہی اردو ہوگئی زندہ
یہ سید کی بزرگی کا اثر ہے جو رہی زندہ
جس میں اردو کے لغات اور محاوروں اور ضرب المثلوں کا خزانہ بھردیا ہے۔ اس وقت چونکہ اردو کی لغات عمدہ طور پر لکھی نہ گئی تھی۔آپ کی کتاب مذکور دیکھ کر زبان دانِ تعلیم یافتہ باغ باغ ہوگئے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب سے اردو کی جان میں جان آگئی تھی ۔یا تو بے سری اردو تھی یا اب مستقل اردو قرار پا گئی۔ اردو کے جس لفظ کے معنی دیکھنے کا جس نے ارادہ کیا، لغت سے دیکھ کر اپنی تسلی کر لی اور دوسری زبانوں نے جان لیا کہ اردو کی لغات تیار ہونے لگی ۔یہ بھاگنے والی اور فنا ہونے والی نہیں ہے۔ ہم نے مدتوں امید لگائی کہ صاحب موصوف کی طرح کوئی اور صاحب بھی اس مشن میں حصہ لیں۔ لیکن کسی کو کیا پروا تھی، سب اپنے دھندوں میں لگے رہے اور کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا کہ بیچاری اردو، کم عمر اردو،بے کس اردو پر کیا بیت رہی ہے ۔کیونکہ یہ دہلی کے قلعہ معلیٰ میں پلی تھی۔ اب اس کو پالنے والا کوئی نہ رہا تھا۔
ہم نے نج کے طور پر ان دنوں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ صاحب موصوف برابر اپنے خیال میں لگے ہوئے ہیں اور اردو کی بابت تصنیف جاری ہے۔ آپ نے انھی دنوں میں ایک عورتوں کی زبان کا اخبار جاری کیا تھا جس کو دیکھ کر زبانداں ششدر ہو گئے تھے۔ اس لیے کہ اُس میں فصیح اردو کے دریا بہائے جاتے تھے۔ پھر آپ نے اپنی عمر کا بڑا حصہ خرچ کرکے فرہنگ آصفیہ ایک ضخیم کتاب لکھی جس کی کئی جلدیں ہیں۔ ان میں اردو کے نکات ایسے لکھے گئے ہیں کہ اگر کوئی ان کو بالالتزام دیکھے، تو وہ نامی زبان داں ہو سکتا ہے۔ چونکہ اردو زبان میں سررشتہ تعلیم کی کتابیں ہیں۔ان کی تحقیق الفاظی اس فرہنگ سے ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ کروڑوں آدمی اردو بولتے ہیں اور ہزاروں آدمی اس زبان میں کتابیں لکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہی فرہنگ آصفیہ خضر و استاد ہے۔ ہم نے اس کتاب کو دیکھا ہے۔ آپ نے بڑی تحقیق کے ساتھ لکھی ہے اور حضرت مولانا حالی مرحوم نے بھی آپ کی اس تحقیق کی داد دی ہے۔ غرضیکہ جو کام بڑے بڑے نامی شعرا سے نہ ہو سکا، وہ آپ نے انجام دیا۔ پس تعلیم یافتوں بلکہ سب کے نزدیک آپ ہی اردو کے لیڈر ہیں:
تم نے دیکھا ہی نہیں تم میں جو دیکھا ہم نے
اجی ہم تم کو بھی اب تم سے چھپا رکھتے ہیں
ہم دیکھتے ہیں کہ دن بدن زبان اردو بگڑتی جاتی ہے۔ تعلیم یافتوں کو چاہیے کہ آپ نے اس ضخیم کتاب میں جو لاکھوں لفظ لکھے ہیں، وہ مستند ہیں۔ وہ اور طرف توجہ نہ کریں، کیونکہ آپ نے سند کے طور پر یہ لکھے ہیں۔ اگر تعلیم یافتہ اور پبلک ہماری نصیحت پر عمل کرے تو پھر کبھی اردو زبان بگڑ نہیں سکتی اور یہ دیدہ کی دلیری لوگوں کی ہے کہ اس لغت کے خلاف لغت گھڑنے لگے ہیں جو بالکل غلط اور غیر فصیح ہیں۔
اس عظیم الشان کام کے بعد بھی آپ خالی نہیں بیٹھتے۔ ایک کتاب “مرقع زبان و بیان دہلی” لکھی ہے جو اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ ہم زبان دان مشہور ہیں، لیکن اس میں چند محاورے اور لغات فصیح و افصح ایسے دیکھے گئے جو ہم بھول گئے تھے۔ اور ہم ثابت کر دیں گے کہ اس کتاب میں جن امور پر زبان اردو کے متعلق بحث کی ہے، ہر زبان داں اور ہر تعلیم یافتہ اور تمام ملک کے لوگوں کا فرض ہے کہ اس کتاب کو دیکھیں اور فائدہ اٹھائیں۔ لائق مصنف نے اول سابقہ فصیح اردوئے دہلی کا فوٹو کھینچا ہے اور اب جو اردو کی گت بن رہی ہے اور آئندہ جو بننے والی ہے اس کا اظہار زور شور کے ساتھ کیا ہے۔ شروع شروع میں جو فصیح محاورے اور قلعہ معلیٰ کی خاتونان کی گفتگوئیں لکھی ہیں، وہ دیکھنے کیا یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ ہما را دل چاہتا ہے کہ عورتوں کی اصطلاحیں اور الفاظ جو آپ نے لکھے ہیں، ان میں سے چند کی نقل ذیل میں درج کریں (اصل کتاب میں دیکھو)۔
آگے چل کر آپ نے زبان اردو کے متعلق بہت سے نادر حالات ارقام فرمائے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور بادشاہوں کے زمانے میں جو یہ اردو پل کر پروان چڑھی،اس کے حالات بھی تحریر ہیں۔ بعد میں اردو جو بگڑ رہی ہے، اس کے حالات سے مطلع کیا ہے۔ ہمارے دوست مرزا عبدالغنی صاحب ارشدؔ نے آپ کی تصانیف پر تقریظ لکھی تھی،اس کا خلاصہ آپ نے درج فرمایا ہے جس کا لکھنا ہم کو بھی ضروری ہے اور جس سے اردو اور اس کی آئندہ حالت کا پتہ لگتا ہے (یہ بھی سارا اس رسالے میں موجود ہے۔ نقل کی ضرورت نہیں)۔ ہم نے چند مقامات کی نقل اس بے نظیر تصنیف کی کر دی ہے جس سے لائق لوگوں کو پتہ لگ گیا ہوگا کہ کیسی بے نظیر تصنیف ہے۔ ہیڈ ماسٹروں، مدرسوں کے ٹیچروں اور شاعروں اور دیگر اہل زبان کو اس کتاب کا بطور سند اپنے پاس رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے زبانِ نفیس، زبانِ فصیح آتی ہے۔ باوجود ان خوبیوں کے اس کی قیمت فی جلد 9؍ علاوہ محصول ڈاک ہے۔ فقط
اسسٹنٹ اڈیٹر رسالہ مخزن
تمام شد