مرقع زبان و بیان دہلی/زبان کی تمیز، اس کا فرق اور مقامی امتیاز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

زبان کی تمیز ، اس کا فرق اور مقامی امتیاز


(١) زبان تو وہی ایک گوشت کی بوٹی ہے جو دانتوں کی چار دیواری میں تالو کی چھت کے نیچے بَل مارتی پھرتی ہے۔ کبھی تو ہونٹوں کے پھاٹک میں درّانہ آ کھڑی ہوتی ہے، کبھی گردن نکال کر ادھر ادھر کچھوے کی طرح جھانکنے لگتی ہے۔ کبھی میٹھی چیز کا مزہ لیتی ہے، کبھی کھٹے اور کڑوے سے منہ بناتی ہے۔ کوئی اسے لسان(٥) کہتا ہے کوئی جِیب(٦) کوئی تیل(٧) کہتا ہے تو کوئی ٹنگ(٨) کسی نے للّو(٩) کہہ لیا، کسی نے رسنا(١٠) سمجھ لیا۔ مگر ہماری مراد اس جگہ روز مرہ کی بول چال یا ہر ایک ملک کی بھاکا سے ہے۔ اس میں خواہ عورتوں کی بولی ہو خواہ مردوں کی ، گنواروں کی گفتگو ہو یا شہر والوں کی، لکھنؤ کی لغت تراشی اور متانت ہو یا دہلی کی سادگی اور سلاست، قلعہ معلیٰ کی معاملہ بندی ہو یا ثقات کی لطیفہ گوئی، شُہدوں کا پھکّڑ ہو یا آزادوں کی بدلگامی، پیشہ وروں کی اصطلاحیں ہوں یا دلالوں کی رمزیں، بچوں کا اوں اوں اور مم مم کرنا ہو یا بیگموں کا نِت نِت اور جم جم کہنا۔ یہ ساری باتیں ہماری اُس زبان میں داخل ہیں جس کا ہمیں بیان کرنا منظور ہے۔

(٢) عام زبان کسی خاص قوم یا شہر پر مخصوص نہیں ہے۔ یہی زبان ہے کہ جانوروں کے منہ میں ہے اور یہی زبان ہے کہ آدمیوں کے دہن میں ہے۔ اگر بلبل اپنے چہکنے میں خوش ہے تو کوّا اپنی کائیں کائیں میں مگن ہے۔ کوئل کوک کو اچھا جانتی ہے تو مور جھِنگارنے کو افضل سمجھتا ہے۔ مینڈک ٹرّانے میں مست ہے تو جھینگر جھیں جھیں میں خوش۔ پپیہا پی پی سے دل بہلاتا ہے تو فاختہ کو کو سے انند ہوتی ہے۔ کتا بھونکنے کو خوب سمجھتا ہے تو شیر دھاڑنے کو پسند کرتا ہے۔ اونٹ کو بڑّانا بھاتا ہے تو بِجار کو ڈکرانا بھلا لگتا ہے۔ غرض ایک دوسرے کی زبان اور لہجہ کو بحیثیت مجموعی ہم برا نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے کہ ہر ایک کی زبان بجائے خود عمدہ اور بہتر ہے۔ جو فصیح آدمی اپنی زبان سے کام لیتے ہیں وہی غیر فصیح اور جانور بھی اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔

(٣) زبان کیا ہے۔ منشائے دلی کے اظہار کرنے کا آلہ ہے۔ ایک زمانہ ہوگا کہ ہم آنکھوں یا ہاتھوں کے اشارہ سے کام لیتے ہوں گے۔ پھر ایک زمانہ وہ آیا ہوگا کہ ہم نے صرف اِسموں سے کام نکالا ہوگا۔ اب ایک زمانہ یہ ہے کہ ہم نے اسما، افعال، روابط وغیرہ وغیرہ کو ملا جلا کر ایک عمدہ تسلسل پیدا کر لیا اور اپنے مفہوم کو اس طرح ادا کرنے لگے کہ سامع کو سمجھنے میں کسی طرح کی دقت نہ رہی۔

(٤) اب اگر ہم طاقتور، شہ زور اور کسی جنگل یا پہاڑ کے محنت کش باشندے ہوں گے تو ہمارا ایک ایک لفظ اور ایک ایک کلمہ جرأت، طاقت، سختی، اکّھڑپن، غضب و خشونت کا جامہ پہنے ہوئے ہوگا۔ حاکم سے بولیں گے تو اکڑ ہی کر بولیں گے۔ اخلاص کی بات بھی کریں گے تو ایسی جیسے پتھر کھینچ مارا ۔ اس میں بھی اگر بانگر میں ہماری بود و باش ہوگی تو ہم سب سے زیادہ کرخت لفظ زبان سے نکالیں گے اور جو کھادر میں تو اس سے دوسرے درجے پر ہمارے الفاظ ہوں گے۔ اور اگر ہم دال چپاتی کھانے والے ، ناز پروردہ، عیش منانے والے ہوں گے اور کبھی ریاضت کے پاس نہ بھٹکے ہوں گے تو ہماری بات بات سے مسکینی، غربت ، سستی، کاہلی ٹپکے گی۔

(٥) اوپر کی بحث سے ثابت ہوا کہ کوئی ملک اور کوئی ولایت کیوں نہ ہو، اس میں دو طرح کی زبان اور دو طرح کے الفاظ ہوں گے۔ بعض الفاظ میں صرف لہجہ کا فرق ہوگا، بعض میں اصلیت کا۔ اس میں سے ایک زبان اکّھڑ اور سخت کے نام سے جسے گنواری یا جفاکش لوگوں کی بولی کہہ سکتے ہیں، مشہور ہوگی۔ دوسری ملائم اور نرم جسے شہری زبان کے نام سے موسوم کرنا بیجا نہ ہوگا، تعبیر کی جائے گی۔

(٦) تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ بارہ بارہ کوس کے فاصلہ پر زبان بدل جاتی ہے مگر خاص شہر میں بھی دو طرح کی زبان ہوتی ہے۔ ایک عام لوگوں کی جسے بعض لوگ زبانِ جہلا یا ادنیٰ آدمیوں کی زبان کہتے ہیں۔ دوسری خاص لوگوں کی جسے زبانِ شعرا یا فصحا سے نسبت دیتے ہیں۔ شعرا کی زبان میں بھی اختلاف ہے۔ کوئی عام محاورے پسند کرتا ہے، کوئی خاص۔ جیسے استاد ذوقؔ اور حضرت غالب۔ اب اُن شہروں میں بھی فرق ہے۔ جو شہر کسی بادشاہ کا مدت تک دارالخلافہ رہا ہوگا، اس کی زبان اور شہروں کی نسبت عمدہ اور زیادہ شائستہ خیال کی جائے گی اور ہر ایک مصنف یا شاعر یا فصیح اسی شہر کی زبان کو قابل سند اور لائق تقلید سمجھ کر وہاں کے باشندوں کی پیروی کرے گا۔ اور جو وہ شہر(١١) نہ تو کسی نواب یا وزیر یا اس کی تخت گاہ ہوگا اور نہ اس میں فصحا و شعرائے زبان کا مجمع ہوگا تو اُس کا چنداں اعتبار نہیں کیا جائے گا، گو وہ شہر کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرے۔ لیکن باعتبارِ زبان تو ہر ایک زبان کا مرتبہ ایک ہی ہے مگر اس لحاظ سے کہ دار السلطنت میں آکر ہر ایک لفظ سانچے میں ڈھلتا اور خراد چڑھتا ہے، اسے سب پر ترجیح دے سکتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت میں ہزاروں دلیلیں موجود ہیں۔ اگر کوئی کشمیر کا رہنے والا ہندوستان کی زبان کو برا بتائے یا کوئی ہندی نژاد اصفہان کی زبان کو ٹکسال باہر ٹھہرائے تو کیا کوئی عقلمند تسلیم کر لے گا؟ نہیں ہرگز نہیں۔

(٧) اب رہی یہ بات کہ زبان کی عمدگی کن باتوں پر منحصر ہے۔ سو یہ ہم کیا تمام عالم کھلے خزانے کہہ رہا ہے کہ زبان کی خوبی اس کی سلاست، عام فہمی، نرمی،موزونی، دل کشی، چھوٹے چھوٹے الفاظ، بڑے بڑے مطالب پر موقوف ہے۔ جو لفظ جہاں چسپاں ہو وہیں نگینے کی طرح جڑا ہو۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی سمجھ میں آجائے۔ سو یہ بات زیادہ تر عورتوں کی زبان میں پائی جاتی ہے اور عورتیں بھی کون سی جو بازاری نہ ہوں یا ان لوگوں کی بول چال میں جنھوں نے اپنے ماں باپ کے روزمرہ کو معیوب سمجھ کر اس کے چھوڑ دینے پر مبادرت نہ کی ہو، اپنی اصل پر خود بھی قائم رہے ہوں اور زبان کو بھی جوں کا توں بنا رکھا ہو۔ اگر چہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اوروں کی زبان کی حرف گیری کرتے ہیں وہ بھی گھر میں جا کر اپنے بال بچوں کے ساتھ وہ گفتگو نہیں کرتے جو باہر لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں بھی وہ لفّاظی، سجع بندی، قافیہ پیمائی، خودرائی پائی جاتی ہے کہ جسے سن کر خواہ مخواہ آدمی کی طبیعت الجھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی بات بناوٹ، ساختگی اور آوُرد سے خالی نہیں ہوتی ۔ بلکہ ان کا کلام نِرا بے لطف اور بے اثر ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ عربی، فارسی کے غیر مستعمل لغت ٹھونس ٹھونس کر بھر دیتے ہیں۔ اگر کوئی عبارت لکھنے بیٹھے تو دس بیس لغت کی کتابیں آگے رکھ لیں اور اپنی بے معنی علمیت جتانے کو بڑے بڑے لفظ چن کر اس عبارت میں داخل کرتے چلے گئے اور اس کا نام زبانِ علمی رکھ لیا۔ اگر وہ زبانِ اردو ہے تو اس کا نام بدنام کرنے کو بود کی جگہ تھا، است کی جگہ ہے لکھ دیااور اس عبارت کو سررشتہ تعلیم کا رہنما سمجھ لیا۔ عربی لفظوں کو اس طرح بھرا کہ ایک ایک بات کے چار چار مترادف ٹھہرا کر لکھ دیے۔ ان کی بلا سے کوئی اس سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ کسی نے اس عبارت کو مجذوب کی بَڑ جانا اور کسی نے بلائےجان سمجھا۔ اگر وہ اخبار ہے تو پُڑیاں بندھیں اور جو کتاب ہے تو لڑکوں نے پٹاخے بنائے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اب پھر اپنے مطلب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔

(٨) جس طرح زبان کی خوبی سلاست پر موقوف ہے، اسی طرح اس کی تکمیل ہر قسم کے الفاظ کی دستیابی اور کسی طرح کی روک نہ ہونے پر مخصوص ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے سخت الفاظ سے پرہیز کریں اور ان کو اپنی زبان پر نہ آنے دیں تو سخت کاموں کے واسطے کہاں سے لفظ لائیں گے اور سخت آلات کا نام کن کن لفظوں سے موزوں کریں گے۔ ایسے لفظوں کا استعمال کرنا جو بالکل ہمارے کانوں سے جدا، زبان سے نا آشنا ہوں کسی طرح کارآمد نہ ہوگا۔ بلکہ اگر وہ لفظ ہمارے قواعد اور لہجہ کے موافق ڈھالے جائیں گے تو بھی پورا پورا مطلب نکالنے پر قادر نہ ہوں گے۔ مگر پچھلی صورت جب تک اپنی زبان سے کوئی لفظ بنایا جائے اور اس کی کامل ترقی ہو، کام نکالنے کے لیے اچھی ہے۔ پہلی صورت کا مصداق ہمارے ہندوستان میں اسی شہر کے لوگ ہیں، جہاں کے نوکر چاکر تک جن کو آٹھ پہر اُن لوگوں سے کام پڑتا ہے، اپنے آقا کی بولی نہیں سمجھ سکتے۔ ان کے آقاؤں کی زبان پر عربی فارسی کے وہ الفاظ چڑھے ہوئے ہیں جو شاید ان کے سوا اور لوگ لکھنے میں بھی استعمال نہ کرتے ہوں گے اور وہ بھی لکھتے ہوں گے تو لغت کی کتاب سامنے رکھ کر۔

(٩) پرانی زبانوں کو جو تنزل ہوا ہے اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ غیر مانوس الفاظ کا رواج پانا، دوسرے ملک کے ایسے لفظوں کو جن کا ثانی اپنے ملک میں موجود ہو داخل زبان کرنا، سخت سخت مخارج کے لفظوں کو فخریہ اپنی زبان پر چڑھانا، عام لوگوں کی زبان کو پایۂ اعتبار سے گرانا، سہل الخروج لفظوں کو خیال میں نہ لانا۔ علی ہذا القیاس اور بھی ایسے ہی باعث ہوئے ہیں کہ جہاں کوئی کرخت اور سخت لفظ لوگوں کی زبان سے نہ نکلا یا تو اسے بالکل ترک کر دیا یا کچھ سے کچھ کر لیا۔ اور دیگر زبان کے آسان لفظ دیکھ کر اپنی زبان میں ملا لیے۔ سخت زبان صرف کتاب ہی میں دھری رہ گئی۔

(١٠) ایک زمانہ وہ تھا کہ تمام ہندوستان میں سنسکرت پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی اکّا دکّا ہی ہوگا جو سنسکرت سے آشنا نہ ہوگا۔ مگر چونکہ اس کے اکثر الفاظ بآسانی ادا نہیں ہو سکتے تھے، اُسی زمانے میں اس سے ملتی جلتی ایک اور پالی زبان بولی جانے لگی۔ جب اُس میں بھی وہی دقت پیش آئی تو پراکرِت کا جھنڈا قائم ہوا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بھاکا اور پھر اردو زبان کا رواج ہو گیا۔ قدیمی زبان ایسی گم ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ البتہ سنسکرت کے وہ الفاظ جو ہماری زبان سے آسانی کے ساتھ نکل سکتے تھے آج تک جوں کے توں قائم ہیں اور جو الفاظ اس زمانہ میں پنڈتوں کے سوا اور لوگوں کی زبان سے صاف ادا نہیں ہو سکتے تھے یا تو وہ صرف کتابوں میں ہیں یا انھوں نے کوئی اور صورت قبول کر لی ہے۔ یعنی کہیں سے کوئی حرف گرا دیا، کہیں کسی حرف کو کسی حرف سے بدل دیا اور اپنا مطلب نکال لیا۔

(١١) ایک ہی ملک میں ایک زبان کے ہوتے جو دوسری زبان کا رواج ہو جاتا ہے، اُس کا سبب بھی یہی ہوتا ہے کہ پہلی زبان اپنی سختی کے باعث ناگوار گزرنے لگتی ہے۔ دیکھو سنسکرت کے زمانہ میں پالی اور پراکرت نے اپنا جھنڈا گاڑ ہی دیا۔ژند و پاژند کے وقت میں دَری کا نقشہ جم ہی گیا۔ عبرانی کے وقت میں عربی نکل ہی آئی۔ اسی طرح ہر ایک زبان میں ہوتا آیا ہے اور اکثر سخت زبانوں کا یہی حال ہوتا ہے۔

(١٢) اس بیان سے ہماری مراد یہ نہیں کہ غیر زبانوں کے لفظ اپنی زبان میں داخل ہی نہ کیے جائیں۔ نہیں اگر ضرورت پڑے تو ضرور داخل کر لو۔ بعض علومِ جدیدہ اس قسم کے ہیں کہ ان میں جو اصطلاحیں استعمال میں آتی ہیں وہ ہماری زبان میں موجود نہیں۔ مثلاً علم نباتات و جمادات میں جو اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں، ان کے مرادف ہماری زبان میں بہت کم ہیں۔ اسی طرح ریل اور تار کی اکثر اصطلاحیں ایسی ہیں، جن کے مرادف نہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم نئے لفظ تراشنے کی کوشش کریں اگر انھیں الفاظ کو بجنسہٖ یا تھوڑے تغیر و تبدل سے اپنی زبان میں داخل کر لیں تو اس کا مضائقہ نہیں۔سٹیشن، لمپ، انجن، پنسل انگریزی کے لفظ ہیں۔ مگر ان کا رواج ایسا عام ہو گیا ہے کہ کانوں کو برے معلوم نہیں ہوتے۔ اس قسم کے الفاظ زبان میں داخل کرنے سے زبان کی وسعت ہوتی ہے اور اپنے خیالات کو ظاہر کرنے کا آسان طریقہ حاصل ہوتا ہے۔ البتہ کوئی شخص روٹی کی جگہ بریڈ، پانی کی جگہ واٹر استعمال کرے تو یہ نہ تو کانوں کو اچھا معلوم ہوگا اور نہ زبان کو اس سے وسعت حاصل ہوگی۔

جس وقت ١٩١١؁ء میں دلی شہر ہند کا دارالخلافہ قرار دیا گیا تو ہماری زبان سے حسب فرمائش جناب لفٹنٹ کرنل ڈیلس صاحب بہادر کمشنر دہلی، بے ساختہ اس جدید دار السلطنت کا نام “مستقر الخلافہ” ظہور پذیر ہوا۔ روزانہ پیسہ اخبار اور رسالہ تاج حیدرآباد دکن کے رسالے نے اسے بڑے شوق سے چھاپا۔ چنانچہ بمقتضائے وقت اس جگہ بھی اس کی نقل کیے دیتے ہیں۔

قطعہ تاریخ جدید دار الخلافہ دہلی

یہ ڈیلس بہادر نے فرمایا مجھ سے اسی کے مطابق ہو نام اس کا ایسا برآمد ہوا ایسا ہی نام سید نہ ہجری نہ سمّت نہ فصلی کا جھگڑا


کہ قیصر نگر کی جو ہے شان و عظمت برآمد ہو تاریخ بے رنج و کلفت نہیں جس کے اعداد میں کچھ بھی حجت مگر عیسوی مستقر خلافت

شہنشاہ اکبر کے زمانہ میں اکبر آباد کو مستقر خلافت لکھا جاتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں دہلی شاہجہاں آباد کو بھی مستقر خلافت لکھنا واجب و لازم ہے۔ اب ہم غیر مطبوعہ مقدمہ لغات میں سے کسی قدر عبارت کی اس جگہ نقل کر کے ناظرین رسالہ کو محظوظ کرتے ہیں:

“القصہ دلّی کے ادنیٰ ادنیٰ آدمیوں پر سحر بیانی ختم ہے۔ نغمہ داؤدی ان کی ایک قدیم رسم ہے۔ بات بات میں اعجاز ہے۔ مسیحا کو انھیں حضرات پر ناز ہے۔ فصاحت طفل مکتب ہے اور بلاغت تلمیذِ اصلاح طلب:

کسے را زندگانی شاد باشد


کہ در شاہ جہاں آباد باشد

چونکہ ہر بدایت کے واسطے نہایت اور ہر آغاز کے لیے انجام ضرور ہے۔ پس ہمارے وقت کے فصحا نے بعہد گورنری جناب لارڈ کوئیس آف رِپن اور ڈائرکٹر صاحب بہادر سر رشتہ تعلیم جناب کرنل ہالرائڈ صاحب بہادر نے جبکہ اخبار نویسوں کو آزادی بخشی گئی اور پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی تو 1882؁ء میں زبانِ نیچرل و سخن کو کمال پر پہنچا دیا اور فرشتوں نے زبان کے حق میں مقولہ اتممت عليكم سنا دیا۔ آئندہ امید شستگی معلوم و تمنائے آراستگی مفہوم:

غلط کہ صانع کو ہو گوارا خراشِ انگشتہائے نازک جوابِ خط کی امید رکھتے جو قولِ جفّ القلم نہ ہوتا