مرقع زبان و بیان دہلی/ذہن کی رسائی اور سودا بیچنے والوں کی آوازیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

خدا داد ذہن کی رسائی اور طباعی کا یہ عالم تھا کہ ادنیٰ جاہلِ مطلق ترکاری فروش جن کو غلط و صحیح زبان کا ہوش نہیں اور جاہل کیا بلکہ اجہل ہیں، اپنی ترکاریوں کو اس مزے سے چھڑک چھڑک کر بیچتے تھے کہ اَنہوئے کا جی للچا جاتا اور جی چلا کر خریدار بن جاتا تھا۔ کسی ترکاری کا نام کنایہ و تشبیہِ تام سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ غیر ملک اور غیر شہر کا آدمی اِن کے لہجے کی خوبی اور بنا کر بیچنے کی خوش اسلوبی سے مستانہ وار بن بلائے آن پھنستا تھا۔ اگر بالفرض کوئی کنجوس مکھی چوس ہوتا تھا تو وہ بھی حاتم کی قبر پر لات مار حاتمانہ دل کر جاتا تھا۔ کبھی لحن داؤدی کا لطف آتا تھا تو کبھی میاں تان سین کی تان کا مزہ آ جاتا تھا۔ اگر کوئی مارو بینگن بیچنے والا ہے تو چھیبے میں مارو بینگن ہیں اور یہ آواز لگا رہا ہے “بھاڑ میں ڈال یا چنے کی دال میں ڈال”، نام نہیں لیتا۔ مگر لوازمات سے دلنشیں کر دیتا ہے کہ میں وہ چیز بیچ رہا ہوں کہ اسے دل چاہے بھاڑ میں بھنوا کر بھرتہ بناؤ یا چنے کی دال میں پکا کر سالن یا قلیہ کا لطف اٹھاؤ۔ کوئی “شاہ مرداں کی لالڑیاں” پکار رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ علی گنج کی میٹھی میٹھی لال لال اور اُودی اُودی گاجریں کھاؤ تو لے لو۔ علی گنج کی زمین چونکہ ریتلی ہے اس لیے وہاں کی گاجریں اور جگہ کی نسبت میٹھی اور خوش رنگ ہوتی ہیں جس کے سبب لعل کی تصغیر کرکے لالڑیاں کہہ دیا۔ “پال کے لڈو”، “لڈوے کی پال”، اس جگہ صرف پال کے اشارہ سے جتا رہا ہے کہ ہمارے پاس لڈّو کے مزے کے گولڑے آم ہیں۔ لڈو نہ کھاؤ انھیں کھا لو۔ “تیر کر آئی ہے بہتے دریاؤں کو”، نام نہیں لیا مگر جتا دیا کہ یہ وہ ترکاری ہے جو دریا کے کنارے فالینر میں بوئی جاتی ہے اور اب دریا پار سے لاکر یہاں بیچی جاتی ہے۔ وہ کیا ہے؟ ککڑی۔ “شرط والے کی باڑی ہے” یعنی شرطیہ میٹھی باڑی کی ککڑیاں ہیں۔ “نون کے بتاسے”، “کالی بھونرالی نمکین”، “نون والے ہی نمکین” جامن(١٦) فروشوں کی آواز ہے۔ (1) چونکہ شروع فصل میں بے دانہ جامن گول اور گودے دار ہوتی ہے جسے فروشندہ نمک ڈال کر ہانڈی میں گھلا کر دیتا ہے اور بتاسے کی طرح منہ میں جلد گھل جاتی ہے، اس سبب سے نون کے بتاسے کہا۔ (2) جو چیز ہم بیچ رہے ہیں وہ بھونراسی کالی، اسی کے سے قد کی نمک میں گھلائی ہوئی اور نمکین ہے۔ (3) یہ چیز نون کے ساتھ مزہ دینے والی اور نمکین ہے۔ “نرمل تلاؤ کے دودھیا”، “کیوڑے کی بیل کے سنگھاڑے” (1) یعنی ہم جس چیز کو بیچ رہے ہیں وہ صاف پانی کے تلاؤ کے لائے ہوئے اور دودھ کے سے مزہ کی ہے۔ (2) ہم سنگھاڑے بیچ رہے ہیں جن میں کیوڑے کی سی خوشبو ہے۔ پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنگھاڑے کی بیل نہیں وہ کیوڑے کی بیل ہے۔ بھنے سنگھاڑے کی آواز۔ “کاغذ گری کے بھنا دیے بادام” یعنی ہمارے بالو میں بھنے ہوئے سنگھاڑے کاغذی بادام کی گری سے کم نہیں ہیں۔ نام تو نہیں لیا مگر مزہ یاد دلا دیا۔ علی ہذا “اخروٹ کی گری کے مزے کا، گرمی کی ٹھنڈائی ہے میرٹھ سے منگائی ہے” کسیرو والے کی آواز۔ چونکہ میرٹھ کے پاس کسیرو کھیڑے میں بہ کثرت ہوتے ہیں اور موسم گرما میں ان کے کھانے سے دل میں ٹھنڈک سی پڑ جاتی ہے، نیز مزاجاً بھی دوسرے درجہ میں سرد ہیں، پس اس مناسبت سے یہ آواز لگائی۔ “پیڑ کے پکّے امرود میں سیب کا مزہ” اس آواز میں جتاتا ہے کہ پھل وہی اچھا ہے جو پیڑ کا پکّا ہو نہ کہ پال ڈال کے یا گدرے توڑ کر پختہ کر لیے ہوں، پس ہمارے پاس پیڑ کے پکّے امرود ہیں اور اسی وجہ سے ان میں سیب کا مزہ ہے۔توت فروش کی آواز “ریشم کے جال میں ہلایا، قند کا بنا ہے جلیبا”۔ باغبان اکثر تو یونہی پیڑوں کی ٹہنیاں ہلا کر شہتوت جھاڑ لیا کرتے ہیں اور بعض درخت کے نیچے چادر تان کر ٹہنی کو ہلا دیتے ہیں، ریت اور مٹی سے بچا کر جمع کر لیتے ہیں۔یہ کہتا ہے کہ ہمارا جلیبا ریشم کے جال میں ہلا ہلا کر جھاڑا گیا ہے۔ گرد و غبار سے پاک ہونے کے سبب اس میں قند کا مزہ ہے، گویا قند سے ہی بنایا گیا ہے۔ ریشم کے جال سے ایک اور خوبی بھی جتائی یعنی ظاہر کر دیا ہے۔ چونکہ ریشم کے کیڑوں کی توت کے پتّے خوراک ہے اور اسی درخت پر وہ پالے نیز پرورش کیے جاتے ہیں۔ پسں ہم نے اسی کیڑے کے جال میں جھاڑ کر اکھٹا کیا ہے جو اس درخت کا مایہ ناز اور اعلیٰ درجہ کا ریشمی کیڑا ہے۔ آڑو والے کی آواز “ڈالی ڈالی کا گھلا پیوندی ہے” یعنی ہمارے پاس پیوندی آڑو ہیں جو ڈالی ڈالی میں پک کر قدرتاً گھل گئے ہیں۔ فالسے والے کی آواز “سانولے سلونے ہیں شربت کو” یہاں فالسوں کا نام نہیں لیتا مگر ان کی رنگت اور لوازمات کو جتا رہا ہے جس سے گاہک خود سمجھ جاتا ہے کہ سانولا رنگ اور نمک سے مزیدار بننے یا شربت بنا کر پینے والی چیز یعنی فالسے ہیں۔ وہ یہ سمجھ کر خرید لیتا ہے کہ فالسے ہیں۔ خربزہ والے کی آوازیں “قند کے ڈلے ہیں قند کے” (2) تربوز فروش کی آواز “باڑی کے رنگ لال ہیں”۔ (3) “رنگت کے گھڑے ہیں”، “بھائی سب ہی رنگ لال” (1) یعنی مزے میں قند کے ڈلے ہیں تربوز (2) فالیز کے رنگ لال تربوز ہیں۔ (3) مصنوعی رنگ سے لال نہیں کیے ہیں بلکہ کھیت میں ہی پک کر لال ہوئے ہیں۔ ان کو ضرور خرید لو۔ “کالے پہاڑ کی سوندھی اور میٹھیاں” (پھونٹیں) (2) “بیجوں سے میٹھیاں” یعنی سیندھیاں یا کچریاں۔ یہ کچریاں بیچنے والے کی آواز ہے کہ ہم منہ سے نام نہیں بتاتے مگر اتا پتا دیتے ہیں کہ جو چیز ہم بیچ رہے ہیں یہ اس کھیت کی ہیں جو دہلی سے قریب جانب غرب کالا پہاڑ نامی ہے۔ وہاں کی سوندھی اور میٹھیاں ہیں۔ بھلا کیا؟ کچریاں ! جن کا خوشگوار خوشبو کے سبب سیندھیاں نام پڑ گیا ہے۔ میٹھی بھی ہیں، کھٹ مٹھی بھی۔ ان کے بیج اور جگہ کی کچریوں کی طرح کڑوے نہیں ہیں۔ بھٹے والے کی آوازیں “دریا کی ریتی کے کیلے ہی کا مزہ”، “نو بہار کیلے بھٹے لے جا ہری ڈالی کے”، اول آواز میں بھٹے کو بلحاظِ قد و قامت و شیرینی کیلے سے تشبیہ دی۔ دریاؤں کی ریتی سے اصل کیلے کا شبہ مٹا دیا تاکہ خریدار دھوکا نہ کھائے۔ دوسری آواز میں لفظ نو بہار سے نیا پھل، ہری ڈالی سے اس کے تازہ ہونے کا یقین دلایا۔ کیونکہ تازہ بھٹّا جس قدر میٹھا ہوتا ہے دیر کا رکھا ہوا یا رات کا بسا ہوا ایسا مزیدار نہیں ہوتا۔ اس خوبی کے علاوہ بعض میوہ فروش تو مصرعے کے مصرعے گھڑ ڈالتے ہیں۔ مثلاً “مزہ انگور کا ہے رنترے(١٧) ہیں” پورا مصرع ہے جسے شاعروں تک نے مانگ کر اپنی غزلوں میں شامل کر لیا اور دوسرا مصرع اس طرح چسپاں کر دیا ہے “عسل زنبور کا ہے سنترے میں”۔ کھٹّے چنے والے کی مصرع میں آواز “کرارے بُھربُھرے نیبو کے رس کے”، دیگر “لے آ چاٹ ہے یہ دہی کے بڑوں کی”، “یہ جاڑے کی لو کھوپرا ہے گجک” یعنی گجک جو ہم تلوں سے بنا کر بیچ رہے ہیں، یہ جاڑے کے موسم کی گجک اور کھوپرے کے مزے کی نیز موسم سرما کے مناسبِ حال ہے۔ غدر سے ایک برس پیشتر ایک موتیا فروش بوڑھا چاندنی چوک میں یہ آواز لگایا کرتا تھا۔ بالا خانوں کی تعلیم سے آشنائی رکھنے والے پھولوں، کنٹھوں کے دلدادہ، عاشق مزاج اسی سے خرید کر رقاصوں، طوائفوں کو اپنے گلے کا ہار بناتے اور پھولے نہ سماتے تھے۔ وہ دلفریب و دلکش آواز تھی۔ گل فروشوں کی آوازیں “لوکٹورے موتیا میاں لوکٹورے (مو)”، “کیا لپٹیں آ رہی ہیں چنبیلی میں”، “کیا بہار ہے زرد چنبیلی میں”۔ القصہ ہر ایک چیز کے بیچنے والے کی جداگانہ آواز تھی۔

یہی فقیروں کا حال تھا کہ روز ایک نئی صدا بنا کر گھر گھر مانگتے پھرتے تھے۔ کوئی کہتا تھا (1) کیا تھا کیا ہو گیا۔ چمن تھا گل ہو گیا۔ (2) کیا تھا کیا ہو گیا گل تھا چمن(١٨) ہو گیا۔ یاد رب کی اور خیر سب کی۔ یہاں دے اور وہاں لے۔ ترے آگے کی بھی خیر پیچھے کی بھی خیر (یہ ایک رسول شاہی پر معنی صدا تھی)۔ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے۔ فرید شکر گنج، نہ رہے دکھ نہ رہے رنج۔ دُھم قلندر دودھ ملیدہ۔ مست قلندر دودھ ملیدہ۔

اب ذرا سقّوں کی بھی کیفیت سنیے۔ چھل پلانے والے سقے۔ دہلی میں ایک تو وہ سقے ہیں جو گھروں میں پانی بھرتے پھرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو دن بھر کٹورہ بجا کر بازاروں میں دو کوڑی پیاس، چار کوڑی پیاس پانی پلایا کرتے تھے، انھیں چھل پلانے والے سقّے کہا کرتے تھے۔ سہ پہر سے چاندنی چوک میں، جامع مسجد پر، چاؤڑی بازار میں، فراشخانہ کے باہر ان کا جمگھٹ رہا کرتا تھا۔ ایسے مزے سے تال سر کے ساتھ دو کٹورے ملا کر بجاتے تھے کہ بار بد بھی ان کے آگے کان پکڑتا تھا۔ اور جس وقت دو سقّوں میں بحث آ پڑتی تھی تو ہر ایک اپنا کمال دکھا کر تحسین و آفریں کا مستحق ہوتا تھا۔ بھری مشک کندھے پر ، مشک پر کھاروے کا تربتر کپڑا پڑا ہوا، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا کٹورا بھرا ہوا لیا اور ہر ایک شریف سے کہا کہ میاں پانی لاؤں! اگر کسی نے سبیل پلانے کی اجازت دے دی تو اس صورت میں شعر پر شعر پڑھتے جاتے اور سبیل پکارتے جاتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ سبیل ہے پیاسوں کو۔ کوئی کہتا تھا کہ تیرے پاس ہو تو دے جا، نہیں پی جا راہِ مولی۔ کوئی کہتا تھا کہ سبیل ہے حسینؑ کے نام کی۔ سبیل ہے دونوں شہزادوں کے نام کی:

پانی پیو تو یاد کرو پیاس امام کی


پیا سو! سبیل ہے یہ شہیدوں کے نام کی

دن بھر پانی پلاتے۔ رات کو اپنی اپنی منڈلی میں بیٹھ کر کھنڈ الاپتے اور تمام دن کی تھکن اتارتے تھے۔ باقی پھر کبھی:

اب تو جاتے ہیں میکدہ سے میر


پھر ملیں گے اگر خدا لایا