مرقع زبان و بیان دہلی/دہلی والوں کا خدا داد ملکہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دہلی والوں کا خدا داد ملکہ


جس حالت میں ہم نے دہلی کی پہلی، حال کی اور آئندہ زبان کا بیان، اس کی تمیز اور مقامی فرق کو آئینہ کر کے دکھا دیا تو اب مناسب نہیں کہ 1857؁ء سے پیشتر جو یہاں کے لوگوں کی چال ڈھال، تراش و خراش، چہل پہل ہماری نظر سے گزری تھی اسے چھپائے رکھیں۔ ان کی خدا داد طبعی جولانیاں، ملکۂ داد طلب کی روانیاں، ان کی جودتِ طبع، ان کی روشنیٔ طبع اور بے ساختہ اپج کو دل سے بھلا دیں۔ یہ باتیں آئندہ تاریخ نگاروں کے واسطے ایک قیمتی نوٹ کا کام دیں گی اور موجودہ نسلوں کو دلّی کے خمیر اور وہاں کی سرشت و خصلت سے آگاہی بخشیں گی۔ یہ ایک تھیٹر ہوگا اور ہمارا بیان ان کا ایکٹر۔ لیکن افسوس کہ ہم اس چھوٹے سے رسالہ میں اس کا تمام و کمال تماشا نہیں دکھا سکتے۔ ہر ایک بات کی مفصل کیفیت ہم نے ارمغانِ دہلی کے مقدمہ میں درج کر دی تھی جو آتشزدگی کے بعد کاتب کے گھر سے اور مطبع کے پروفوں سے ہاتھ لگا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ اگر خدا کو منظور ہوا تو فرہنگِ آصفیہ کے طبع ثانی کے موقع پر اسے بھی درج کردیں گے۔ اب تو صرف بطورِ نمونہ اس کے ایک موقع کی نقل اس جگہ کر دیتے ہیں۔ اصل مقدمہ میں اس کی سرخی “کرامات دہلی” تھی، اب خدا داد ملکہ ہے۔ جدید دارالسلطنت کی نو بہار دیکھنے والے اِسے بھی پیش نظر رکھیں اور دیکھیں کہ سرزمین دہلی نے اول اول کیسے گل کھلائے اور کیسے کیسے نو نہال پیدا کیے۔ اب نئے سرے سے ہمارے مَلکِ معظم شہنشاہ ہند و انگلینڈ جارج پنجم کے عہدِ معدلت مہد میں یہ گلزار نئے نئے پھلوں، پھولوں سے آراستہ و پیراستہ ہو کر کیسا کیسا لطف دکھاتا ہے۔ عمارتوں کی، سڑکوں کی، تفرّج گاہوں کی، تفریحی مقاموں، جدید بازاروں، جدید شاہی دفتروں، اجتماعِ افواج، انگریزی باجوں، شاہی درباروں، روسائے ہند کے رئیسانہ جلوسوں، شاندار سواریوں، سلامی کی توپوں وغیرہ کی کیسی دھوم دھام دکھاتا اور ہر طرح سے ادنیٰ و اعلیٰ کے دلوں کو لبھاتا ہے۔