مرقع زبان و بیان دہلی/جھروکوں کی زنانہ اور بے تکلفانہ بیگماتی زبان کی آخری جھلک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جھروکوں کی زنانہ اور بے تکلفانہ بیگماتی زبان کی آخری جھلک


دیکھو! بادشاہی جھروکوں کے سامنے شاہ باغ ہے۔ باغ کے نیچے دریا بہتا ہے۔ دریا کے کنارے خیمے کھڑے ہوئے۔ بیچ میں کشتیاں چھوٹیں۔ کشتیوں میں بھی خیمے پڑے۔ زنانہ کا حکم ہوا۔ دور دور تک ریتی میں پہرے لگ گئے کہ غیر کی بھنبھنی(٣٢) بھی نہ دکھائی دے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں اور عورتوں نے دکانیں لگائیں۔ خضری دروازے سے اتر کر شہزادے اور شہزادیاں، محل، نومحلے کے سلاطین اور ان کی بیگماتیں خیموں میں آکر جمع ہوئیں۔ ایلو! وہ بادشاہ کی سواری آئی۔ دیکھنا؟ کہاریاں کیا بے تکان ہوادار کندھوں پر لیے چلی آتی ہیں۔ ساتھ ساتھ خوجے مورچھل کرتے بھنڈا ہاتھ میں لیے اور حبشنیاں، ترکنیاں وغیرہ چلی آتی ہیں۔ وہ جسولنی نے آواز دی: خبردار ہو۔ ایلو، سب کھڑے ہوگئے۔ مجرا کیا۔ بادشاہ جہاں نما میں آکے بیٹھے۔ باغ لوٹنے کا حکم دیا۔ اہاہا۔ دیکھنا کیا سر پر پاؤں رکھ کر دوڑیں جیسے ٹڈی دل امنڈ کر آیا۔ دم بھر میں سارے باغ کو نوچ کھسوٹ ڈالا۔ کسی نے نیبو کھٹوں کی جھولیاں بھر لیں۔ کوئی کیلے کی گیل پکڑے کھڑی ہے۔ ایک ایک کوٹھری چیختی ہے۔ اچھی بُوا آئیو؟ یہ نگوڑی شیطان کی آنت تڑوائیو۔بھلا اس لُٹّس اور لوٹم لاٹ میں کون کسی کی سنتا ہے۔کوئی آموں کے درختوں پر پتھرے مار رہی ہے۔ کوئی چاقو سروتوں سے بیٹھی گنّے کاٹ رہی ہے۔ لونڈیاں باندیاں جو ذرا دل چلی تھیں، جھپ جھپ درختوں پر چڑھ گئیں۔ توڑ توڑ کر وہیں بکر بکر کھانے لگیں۔ اہاہا دیکھنا کوئی تو گد سے گر پڑی۔ کسی کے کانٹا کسی کے کھڑینچ لگی۔ بھوں بھوں بیٹھی رو رہی ہیں: “ووئی جھلسا لگے اس باغ کو، مجھ سر مونڈی کے تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔مفت میں لہولہان ہوئی”۔

لو باغ لٹ چکا۔ دیکھو نیبو، نارنگی، انار، کھٹوں وغیرہ کی جھولیاں، بھرے ہاتھوں میں گنّے لیے خوش ہوتی گرتی پڑتی چلی آتی ہیں۔ کوئی بے چاری جو خالی ہاتھ ہے تو کیا؟ خفت کے مارے کتراتی، کنیاتی، آنکھ چرائے خفیف خفیف اپنا منہ لیے چلی آتی ہے۔ سب اس کو چھیڑتی نکّو بناتی چلی آتی ہیں۔ دیکھو ہم یہ جھولیاں بھر کر لائے۔ لو ہم سے لے لو ۔ تم اپنے جی میں نہ کڑھو۔ وہ کہتی ہیں، بُوا تمھارا تمھیں کو مبارک رہے۔بھاڑ میں پڑو۔ کیا موئی چار کوڑی کی چیز کے لیے اپنا منہ ہاتھ کانٹوں سے نُچواتی۔اپنی ایڑی چوٹی پر سے صدقہ کروں۔ ایسی کیا نعمت کی مانکا کلیجا تھا۔ اہاہا ! سچ کہتی ہو۔ تمھاری خفت ہمارے سر آنکھوں پر۔ اچھّی یہ بتاؤ پھر تم گئی کیوں تھیں۔ ایک ایک کا منہ تکنے؟ بوا تمھاری وہی لومڑی کی کہاوت ہے۔ انگور کے درخت کے نیچے آئی، خوشے لٹکے ہوئے دیکھ کر بہت للچائی۔ بہت سی اچھلی کودی۔ جب کچھ نہ ہاتھ آیا، یہ کہتی چلی گئی: ابھی کچے ہیں کون دانت کھٹّے کرے۔

لو اب یہ خیموں میں آکر ناچ رنگ دیکھنے لگیں۔ ناؤ میں بیٹھ کر دریا کی سیر کرنے لگیں۔ دریا کے کنارے آپس میں چھینٹم چھانٹا لڑنے لگیں۔ دیکھو کسی کا پاؤں کیچڑ میں پھسل گیا، ساری لت پت ہوگئی۔ کوئی دلدل میں پھنس گئی، ان پر قہقہے پڑ رہے ہیں۔ وہ کھسیانی اور رُنکھی ہو ہو ایک ایک کو چیختی اور پکارتی ہیں۔ اے بی امکی! اے بی ڈھمکی ! اچھی ادھر آئیو۔ ذرا ہمیں اس کیچڑ میں سے نکالیو! کوئی تو جان بوجھ کر آنا کانی دیتی ہے۔ کوئی کہتی ہے بُوا اُپٹکی پڑے تمھارے ڈھنگوں پر۔ اچھی؟ کیچڑ میں کیوں جا پھنسیں۔ اللہ رے تمھارا موٹا دیدہ! دلدل میں جا کودیں۔ سچ مچ دریا کو دیکھ کر آنکھیں پھٹ گئیں یا دیدے پتھرا گئے۔ غرض خوب سی بولیاں ٹھٹولیاں مار کر ان کو نکالا۔لو اب پنکھے کا وقت آیا۔ بادشاہ کو گلابی پوشاک پہنائی اور سب نے سر سے پاؤں تک گلابی کپڑے پہنے۔ جدھر دیکھو گلابی پوش دکھائی دیتے ہیں۔ دریا کے کنارے گویا گلابی باغ کھل گیا۔ سب سلاطینوں کے گلابی کپڑے، گلابی پگڑیاں، کندھوں پر بندوقیں، گلے میں پرتلے، کمر میں تلواریں ہیں۔ کوئی صوبیدار ، جمعدار، دفعدار، نشان بردار۔ کوئی تاشے باجے والا، کوئی نقیب بن کر اپنی پلٹن جمائے کھڑا ہے۔ اوہو! وہ چاندی کا پنکھا مہتاب باغ میں سے اٹھ کر دھوم سے آیا۔ سلاطینوں کی پلٹن سلامی اتار پنکھے کے آگے ہوئی۔ اس کے پیچھے تاشے باجے اور روشن چوکی والیاں چلیں۔ ان کے پیچھے ہوا دار میں بادشاہ اور شہزادے۔ شاہزادیاں، سلاطینوں کی بیگماتیں تخت کے اردگرد پنکھے کے ساتھ ساتھ چلیں۔ درگاہ میں جا کے پنکھا چڑھا دیا۔ بادشاہ اپنی بیٹھک میں آئے اور سب اپنے گھر گئے۔

بعون اللّٰہ تعالی رسالہ نذر آصف ختم ہوا۔

صبحِ عشرت کی شام ہوتی ہے دیکھ لے دل تو اب نظر بھر کر


بزم رونق تمام ہوتی ہے

انجمن اختتام ہوتی ہے

بندہ سید احمد دہلوی، وظیفہ خوار سرکار عالی نظام خلد اللہ ملکہ، ممبر ٹیکسٹ بک کمیٹی پنجاب، المخاطب بہ خان صاحب مؤلف فرہنگ آصفیہ وغیرہ وغیرہ۔

دہلی گلی شاہ تارا

یکم جون 1916؁ء


گزارش تازہ

یہ کتاب اول مرتبہ کم تعداد میں طبع ہوئی تھی۔چونکہ ٹیکسٹ بک کمیٹی پنجاب نے 289 جلدوں کی خریداری منظور فرمائی اور اطراف سے بھی بکثرت مانگ آئی۔ لہذا بارِ دیگر بعد از نظر ثانی و اضافہ چھاپ کر مشتہر کی۔فقط۔

بندہ سید احمد