مرقع زبان و بیان دہلی/اہل قلعہ اور اہل شہر کی زبانوں کا موازنہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

اہل قلعہ اور اہل شہر کی زبانوں کا موازنہ


آمدم بر سر مطلب۔ اہل قلعہ اس زبان کے موجد تھے اور اہل شہر ان کے متبع۔ بلکہ اس زمانہ میں بہت سے محاورے ایسے تھے جو خاص خاندان شاہی یا جہاں پناہ سے متعلق تھے اور شہزادے ان کے برتاؤ سے بیگانہ وار کام رکھتے تھے۔ مثلاً:

بِھنڈا بمعنی حُقّہ

چرن بردار بمعنی کفش بردار

خاصہ: پادشاہی یا امرائی کھانا۔ اس کا رواج دہلی کے نوابوں میں بھی ہو گیا تھا

آب حیات: خاص بادشاہ کے پینے کا پانی جو گنگا سے آتا تھا، گنگا جل

گلابی مینائے مُل: شراب کی چھوٹی سی بوتل

شیشہ شراب: کنٹر

گلّا بمعنی بیت الخلا

باری دار بمعنی چوکیدار

صاحب عالم بمعنی شہزادہ، مرشد زادہ

گفت و شنود بجائے گفت و شنید

خاص تراش: حجام

نعمت خانہ: چوبی، باریک جالی دار کمرہ جو سُفُلدان رکھ کر کھڑا کر دیا جاتا اور اس کے اندر مکھیوں سے بچ کر کھانا کھایا جاتا تھا

قول کا چھلّا: اقرار و مدار کی نشانی۔ خواہ یاد داشت کا چھلا

لکھا بمعنی حالت، حال، درجہ

سُریت بمعنی باندی۔ مگر اہل شہر حرم کے ساتھ ملا کر زیادہ بولتے ہیں

ناموس: باندی

گونتھنا بجائے گوندھنا جیسے ہار گوندھنا

سکھ کرنا یعنی سونا، استراحت فرمانا

تیکھی یعنی غضبناک

چھائیں پھوئیں بجائے خدا محفوظ رکھے،نوج، خدا نہ کرے

سُکھپال بمعنی پینس،پالکی

سکھ سیج بمعنی چھپر کھٹ، مسہری

اسی طرح وہاں کے کھانے بھی خاص تھے۔ مثلاً نور محلی پلاؤ از ایجاد نور جہاں۔ غوصی روٹی، نان پنبہ، نان تنکی، نان گلزار، نان قماش، نُکتی پلاؤ، موتی پلاؤ، نرگس پلاؤ، من و سلویٰ، یاقوتی، دودھ کا دُلمہ، بورانی، سمنی، بادشاہ پسند دال، حسینی کباب، نکتی کباب، کپڑے کا اچار وغیرہ وغیرہ۔

یہی حال پوشاکوں، ٹوپیوں، پاپوشوں وغیرہ کا تھا۔ سلیم شاہی جوتی کا ایجاد جس کے مرزا سلیم موجد ہیں، قلعہ ہی سے ہوا۔ جو محاورے قلعہ معلیٰ سے شہر میں پھیلتے تھے، ان کی وجہ سے اہل شہر کو اپنی زبان پر بھی فخر ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت شیفتہ ایک موقع پر فرماتے ہیں:

شیفتہ اور ستائش کے نہیں ہم خواہاں

یہی بس ہے کہ کہیں ہے یہ زبان دہلی

ان کی ادنی مثال یہ ہے۔ مثلاً تڑپنا بمعنی پھڑکنا جیسے چھری کے تلے تڑپنا، بے تاب و مضطرب ہونا۔جیسے ہنسی کے مارے تڑپنا۔ گُل کھانا، بطور نشانی چھلے وغیرہ کا داغ اختیار کرنا۔ سبز قدم ، منحوس۔ مارنا بمعنی ذبح کرنا، قتل کرنا۔ چھٹی کا دودھ زبان پر آنا بجائے چھٹی کا دودھ یاد آنا۔ زمین پکڑنا، جم کر بیٹھ جانا۔ ہوا باندھنا، دھاک باندھنا۔ جگر پکڑ کر بیٹھ جانا بمعنی جان پر بن جانا۔ پھبتی کہنا بمعنی نظیر موزوں کرنا، موزوں نظیر دینا۔ بِھنّانا، چکرانا، گھبرانا، حواس باختہ ہونا۔ بستگی، انقباض خاطر۔ ظفر:

کہاں تک میری جانب سے رہے گی بستگی تم کو


گرہ دل کی کہیں کھولو ذرا ایمان سے بولو

ناک پکڑے دم نکلنا، نہایت ناتواں و کمزور ہونا۔ ظفرؔ:

مریض غم وہ عرصہ خاک پکڑے

نکلتا دم ہو جس کا ناک پکڑے

چھرّا بجائے بوچھاڑ۔ ظفر:ؔ

گالیوں کا ہم پہ چلتا روز چھرّا صاف ہے


کیا زباں ہے آپ کی کیا روز مرہ صاف ہے

چراغ جلے آنا یعنی شام یا مغرب کے وقت آنا۔ ظفرؔ:

نہ کیونکہ شوق کی گرمی سے دل کا داغ جلے


وہ کہہ گئے ہیں کہ آئیں گے ہم چراغ جلے

غرض اس طرح کے سیکڑوں اور ہزاروں محاورے ہیں جنھوں نے شہر میں آکر شہری زبان کو دلچسپ اور دل آویز بنا دیا تھا۔ لیکن اب:

ہم کہاں وہ کہاں، کہاں جلسے


چشمِ بد لگ گئی مقدر کو

علی ہذا القیاس قلعہ کی بیگماتی زبان اور شہر کی بیگماتی زبان میں بھی فرق تھا۔ لیکن اگر ذرا غور اور انصاف سے دیکھا جائے تو خالص، پِیور اُردو وہی ہے جو مستورات سے حاصل کی گئی ۔ اِن کی زبان ایک بڑی پر اثر، پیاری، دلچسپ، میٹھی، شیریں اور بے تکلف زبان ہے۔ شعرا نے انھیں کی زبان حاصل کرنے سے نام پایا۔ مصنفوں نے انھیں کی زبان کے الفاظ سے ہر ایک بات کا سماں باندھا۔ علم ادب کی مقبول عام تصانیف انھیں کے دم قدم سے قابل قدر و شوق انگیز ثابت ہوئی۔ اس خالص زبان کا سرچشمہ بند ہو گیا۔ بچا بچایا ذخیرہ مرنے والے اپنے ساتھ لے گئے اور اگر برائے نام گنتی کے دو چار اس زبان کے ماہر رہ گئے ہیں تو وہ بھی بستر باندھے قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔ اگر ان سے اس پچھلی جمع پونجی کو نہ سنگوا لیا تو یہ بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ زبان کے دلدادہ! جو کچھ لوٹنا ہے ان سے لوٹ لیں، جو کچھ چھیننا ہے ان سے چھین لیں۔ اگر چہ اس زمانہ کی تصانیف میں خاص کر دواوین، قصائد، مثنویات وغیرہ میں جہاں تک شاعرانہ مذاق سے تعلق ہے بہت سے الفاظ ملیں گے اور ان کے لیے بھی ڈکشنری کی ضرورت پڑےگی۔ لیکن زبان سے برمحل بول کر دکھانے والے شاذ و نادر ہی نظر آئیں گے اور کچھ دنوں میں یہ بھی عالم بالا کو سدھار جائیں گے ورنہ:

ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ بھی نہ حاصل ہوگا


اور چلی جائے گی یوں ہی یہ زباں آخر کار

چونکہ ہم نے بیگماتی زبان کا ذکر چھیڑ دیا، اس وجہ سے ہمیں لازم ہوا کہ چند خاص خاص محاورات جو بیگمات قلعہ سے تعلق رکھتے ہیں یا شرفائے دہلی کی مستورات سے متعلق ہیں، مثالاً لکھ کر ان کی عالی فہمی ، ان کے خیالات، ان کے توہمات کا چربہ اتار دیں۔