مرقع زبان و بیان دہلی/انگریزی زبان وغیرہ کا اختلاط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

انگریزی زبان وغیرہ کا اختلاط


اگر چہ یہ بات خوشی کی ہے کہ ہماری زبان ایک بہت بڑا ذخیرہ بہم پہنچا رہی ہے، مگر ساتھ ہی یہ نقص بھی ہے کہ اصلی خوبی کو مٹا رہی ہے۔ اگر انھیں الفاظ کا اہل زبان تال میل ملا کر رواج دیں اور علمی و قومی اصطلاحوں کو اپنی زبان میں ڈھال دیں تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ اب سے پیشتر بھی غیر ملکوں، غیر قوموں اور مختلف علوم و فنون کے الفاظ ملائے گئے ہیں مگر وہ اتنے بےجوڑ نہیں ہیں، کیونکہ وہ اردو زبان میں ایسے گھل مل گئے ہیں کہ ان میں ذرا مغایرت نہیں پائی جاتی ۔ مثلاً چند عربی، فارسی، ترکی، انگریزی و پرتگالی الفاظ جو اپنی اصلیت سے بگڑ بگڑا کر یا ان کے حروف منقلب ہو ہوا کر، خواہ باہم بدل بدلا کر بظاہر ایک جان ہو گئے ہیں، بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں:

عربی قرناس تھا۔ انگریزی زبان میں کارنس ہو کر وہی کنگنی کی بجائے اردو میں رائج ہو گیا۔ عربی شاقول تھا، اس کا معماروں نے ساہول بنا لیا اور اب سہاول یا سَول کہنے لگے۔ مقدّم بمعنی قصائیوں نے مکدّم ۔ کتف کا کتیب کر لیا۔ مقنع کا مکھنا۔ منیب کا ساہوکاروں نے منیم ۔ طلابہ کا تلاوا بمعنی ہراوُل ۔ حوضہ کا ہودہ بمعنی چوبچہ (یعنی چاہ بچہ)۔ ہودج کا ہودہ بمعنی عماری بن کر داخل روز مرہ ہو گیا۔ اسی طرح فارسی گنبد تھا، ہندی میں گمّت ۔ گنگ صم کا گم صم ۔ نمد کا نمدہ ۔ سالانہ کا سالیانہ ۔ ماہانہ کا مہینا بمعنی ماہوار ۔ شگوفہ کا شفوقہ ۔ شُلّہ کا شولہ بولا جانے لگا۔

ترکی یساول تھا، اس سے جساول، بحالت تانیث جساول سے جسولنی بن گیا۔ آتون کا آتو۔ انگہ کا تگّا۔ تورہ کو جداگانہ بنول کر اس کا مرادف شرع کے ساتھ ملا کر شرع تورہ بولنے لگے۔ قرمزی کا کرمزی کر لیا۔

پرتگالی زبان میں روٹی کو پاؤ کہتے ہیں۔ ہندوستانیوں نے نان پاؤ بنا لیا۔ بلکہ انگریزی باورچیوں، خدمت گاروں نے اس کا نام ڈبل روٹی رکھ دیا۔ المائراکا الماری۔ پینسنیس کا پینس۔ کورپریل کا کھپریل رائج ہو گیا۔ علی ہذا القیاس۔

انگریزی سکرٹری تھا، اس کا سِکتّر ۔ کوپی کا کاپی۔ کمانڈ کمان۔ کم مِٹی کُمیٹی۔ کیپٹن کا کپتان۔ کارٹرچ کا کارتوس۔ فائر کا فیر۔ فی کا فیس جو فی کی جمع ہے مگر مفرد استعمال کرنے لگے ہیں۔ سارسنٹ کا ساسن لیٹ۔ سپٹمبر کا ستمبر۔ ہاک کا ہُک۔ بٹن کا بوتام۔ کارک کا کاگ۔ کرسچن کا کرشٹان۔ ڈژن کا درجن۔ سیکورٹ کا مسکوٹ۔ کناویز کا قناویز۔ شال مرینہ کا شال مدینہ۔ کاچکرڈ کا چکن۔ فلونل کا فلالین۔ اوفیسر کا افسر۔ بٹیلین کا پلٹن۔ گوڈم کا گودام۔ رکروٹ کا رنگ روٹ۔ پریڈ کا پریٹ ۔ رجمنٹ کا رجمٹ۔ رپورٹ کا رپٹ۔ مارئل کا مارتول۔ ارڈرلی کا اردلی۔ ولنٹیر کا بلمٹیر۔ ویسکوٹ کا واسکٹ۔ سپر اینڈ مائنز کا سفر مینا۔ کیمپ کا کمپّو۔ کمانڈر کا کمانیر۔ کوچمین کا کوچوان۔ ڈریور کا درابی۔ میل کارٹ کا کاٹھ میل۔ ٹنڈم کا ٹمٹم۔ پُٹلس کا پُلٹس۔ بابن نٹ کا بابل لیٹ۔ ہوسپیٹل کا اسپتال۔ ڈَسک کا ڈِکس۔ نمبر کا لمبر۔ ڈکری کا ڈگری۔ اسکنر کا سکندر۔ ڈیمنٹی کا گمٹی۔ ٹارپلینگ کا ترپال۔ میجسٹن کا مجنٹن۔ جیل کا جیل خانہ۔ کورشین کا کروسین یا قریشیا۔ کورنس کا کانس۔ کنفائینگ ہوس کا کانجی ہوس۔ میگزین کا میخزین۔ لیڈنگ بِل کا بلٹی۔ لائسینس کا لیسن وغیرہ وغیرہ۔

یہ الفاظ تو وہ ہیں جو ہماری زبان کو ناگوار نہیں گزرتے۔ مگر آج کل انگریزی خوانوں، انگریزی دانوں اور ان کے انگلش سے نا آشنا فیشن ایبل یارغاروں نے جو اردو میں انگریزی الفاظ کی بھرتی شروع کی ہے وہ ہمارے کانوں سے غیر مانوس، ہماری زبان کے لہجہ سے کوسوں دور۔ انگریزی صحبت نایافتہ لوگوں کی سمجھ سے بالکل مغائر ہیں۔ ہم انھیں نہ تو بول سکتے ہیں، نہ ان کا صحیح تلفظ ادا کر سکتے ہیں اور نہ ان کے مفہوم ہی کو سمجھتے ہیں۔ بلکہ الٹی اپنی ہنسی آپ اڑواتے ہیں۔ جیسے بھائی کی وائف پرشن بھی سمجھنے لگی ہے۔ ڈاکٹر نے اسے اَنفِٹ لکھ دیا۔ میں نے سکہ لیو لی ہے۔ محمود میرے انڈر میں نہیں ہے۔ یہ چیز ویری نائس ہے۔ تھنگس۔ مینی مینی تھنگس۔ تھینکیو۔ وہ بیوٹی فل مین ہے۔ مگر آئیڈل مین کہنا چاہیے۔ ڈیمڈ بگر جسے بگاڑ کر ڈام بگر کر لیا ہے۔ تمھاری کیا پے ہے۔ یہ ایکٹر اچھا ایکٹ نہیں کرتا۔ کیا ڈرٹی کاغذ ہے۔ یہ ڈرٹی مین ہے۔ سینری شملہ سے بہتر نہیں۔ آج ریل دو گھنٹے لیٹ آئی۔ تم مدرسہ میں روز لیٹ کر آتے ہو۔ وہ سپاہی سیکوان ہے یعنی سِک مین ہے۔ بریڈ۔ واٹر۔ کوئیشچن۔ مدرٹنگ۔ یہ تو وہ الفاظ ہیں جو زبان سے بآسانی نکل سکتے ہیں۔ مگر کرخت الفاظ کا تو نہ لکھنا آسان نہ بولنا۔ تلفظ اور ہے اور اسپیل اور۔

شورٹ ہینڈ۔ ٹریولنگ اِلونس۔ نائین سوئٹ بمعنی لا دعویٰ جس کا نین سُٹ بباعثِ ضرورتِ عدالت بنا لیا گیا۔ گران جیوری جس کا بمجبوریٔ قانون گران جوڑی کر لیا۔ سکیم آف سٹیڈی بمعنی انضباط اوقات۔ علی ہذا القیاس سیکڑوں بلکہ اس قسم کے ہزاروں لفظ نکلیں گے۔

خیر یہ تو انگریزی الفاظ کی آمیزش اور اس کی دخلیابی کا ذکر ہوا۔ لیکن ہندوستان کے مختلف طبقوں، خطوں کی مختلف زبانوں نے جو ایک دفعہ ہی حملہ کر دیا ہے، اس کا کیا علاج؟ ہمارے نزدیک عام بول چال کو تو زمانہ کی رفتار پر چھوڑ دیں۔ مگر خاص اردو زبان کو علمی، اخلاقی، مہذب، درباری زبان سمجھ کر اردو تصانیف میں برابر ترقی دیے جائیں۔ نہ اِسے آریاورت کی زبان سمجھیں، نہ پوربی بھاکا بنائیں۔ نہ مارواڑی اور پنجابی کا جزوِ اعظم خیال کریں۔

اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک قومی زبان اور خاص پہلو سے اسلامی زبان ہے جسے مغلیہ سلطنت کی ایک عمدہ یادگار کہنا چاہیے۔ مگر چونکہ اس نے ہر زبان کے الفاظ اپنے زمرہ میں شامل کر لیے ہیں اور ہر قوم کے لکھے پڑھے اس کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ادنی و اعلیٰ سب اس کو سمجھتے اور بولتے ہیں۔ لہذا یہ ملکی زبان اور عام ہندوستانی زبان ہونے کا پورا پورا استحقاق رکھتی ہے۔ اس زبان میں ہر شخص کو گفتگو و تصنیف کرنے کا مجاز ہے۔ بشرطیکہ تعصب کی دھندلی عینک سے اسے واسطہ نہ پڑا ہو۔

عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ اس ٹکسالی زبان کے الفاظ کا فرہنگوں، پرانی کتابوں، شعرا کے دیوانوں اور بیاضوں کے سوا کہیں بھی پتہ نہیں لگے گا۔ ہندوستانی قومیں خلط مبحث ہو کر زبان کو کچھ کا کچھ کردیں گی۔ اردو زبان کی مکمل ڈکشنریوں کا ابھی سے کال ہے تو آئندہ کون لکھے گا اور کون لکھوائے گا۔ دعا دیں ریاستِ نظام حضور نظام خلّد اللہ ملکہ کے دم قدم کو جن کے دم کی بدولت ایک آدھ ڈکشنری تیار ہو گئی اور آئندہ کے واسطے قومی زبان کے قیام کی ایک بنیاد پڑ گئی۔

انگریز لوگ اس امر کی طرف کوشش کریں کہ یہ زبان پہلے کی طرح پھر ملکی یا ہندوستانی زبان قرار دی جائے۔ عدالتوں میں اس کا پہلا سا رواج ہو جائے۔ عرائض و فیصلجات اردو میں لکھے جائیں۔ سررشتہ تعلیم اس طرف کامل توجہ فرمائے۔ عدالتی دفاتر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں قائم رہیں تو یہ ڈوبتا ہوا بیڑا غرق ہونے سے بچ جائے یا خود وہ لوگ جو اس زبان کو قومی زبان مانتے ہیں، جنھوں نے اپنی مذہبی کتابوں کے اس میں ترجمے کر ڈالے ہیں یا شعرائے ہند، نیز اہل اسلام روسائے ہند جنھیں اس زبان سے دلچسپی ہے اس طرف توجہ مبذول فرمائیں۔ اپنی عدالتوں میں، درباروں میں اس کا رواج دیں تو ایک یہ صورت بھی اس کے قیام کی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ حضور لامع النور نظام خلّد اللہ ملکہ نے اپنے دفاتر میں یہ بات جاری کر دی ہے۔

اس میں ذرا شبہ نہیں کہ سبک مایہ سارقانِ تصانیف نے اس کی ترقی کا اور بھی بیج مار دیا ہے جس کے سبب اس زبان کے اہلوں نے اس کی طرف سے توجہ اٹھا لی ہے اور نا اہل جو ان کی تصانیف کے چُرانے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتے، ہر پہلو سے کامیاب بن رہے ہیں۔ ان باتوں کو دیکھ کر جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ایسے کام کے دماغ دیے تھے، انھوں نے اپنے دماغوں سے یہ کام نہ لے کر انھیں بیکار اور معطل کر دیا۔ اور اگر کسی نے کچھ کام لیا تو ایسا پچھتایا کہ اخیر عمر تک سر پیٹتا اور پچھتاتا رہا۔ ابھی کا ذکر ہے کہ ایک صاحب شیدائے اردو نے ہماری مملوکہ کتاب بزم آخر کو پرانی کتاب سمجھ کر اس کے مضامین پر اپنا دعویٰ جمانا اور اخباروں میں اپنے نام سے چھاپنا شروع کر دیا تھا؛ مگر جب جتایا گیا تو اس سے باز نہ رہے۔ چنانچہ اس کے متعلق جو چند ظریفانہ سطریں لکھی گئی ہیں وہ کرزن گزٹ مطبوعہ 8؍ نومبر ١٩١٥؁ءجلد 17 نمبر 1٢ میں “یاروں کے غمزہ” کے نام سے طبع ہو گئی ہیں تاکہ یہ عیب لوگوں کے دلوں سے نکل جائے۔ ان سے پیشتر بھی بڑے بڑے عالم فاضل مگر فن لغت سے ناآشنا اور چند مبلغ معلومات سے بے بہرہ اشخاص ہماری فرہنگ پر ہاتھ صاف کر چکے ہیں لیکن مراد کو نہ پہنچے، اَدَھر میں لٹکے رہے۔

اے اپنی زبان کو قائم رکھنے والو! اپنے ذاتی خدا داد مادہ سے کام لو، جس میں دسترس نہ ہو اسے اختیار کر کے قوم کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ ان باتوں سے بچو! بچو!! اور زبان کی خیر مناؤ۔ ورنہ منہ کی زبان کے سوا جو صرف ایک گوشت کی بوٹی ہے، بول چال کی زبان سے محروم رہ جاؤگے۔

اس وقت چونکہ زبان کی طویل بحث آن پڑی ہے اور ہم کو ہر ایک پہلو سے زبان کی تعریف اور اس کے رواج و عدم رواج کی وجہ سمجھا دینی ہے؛ لہذا ہم اپنا ایک پہلا مضمون جو “زبان کی تمیز اور اس کے فرق” کے نام سے لکھا گیا تھا، اس جگہ نقل کر دینا مناسب جانتے ہیں۔ یہ مضمون زبان کے شوقینوں کو بہت سی مدد دے گا اور اس مضمون کی تشریح بھی کر دے گا۔