مرقع زبان و بیان دہلی/اردوئے دہلی کی سابقہ، موجودہ اورآئندہ حالت کی تصویر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

اردوئے دہلی کی سابقہ، موجودہ اورآئندہ حالت کی تصویر


یہ سوال دو رخہ پہلو رکھتا ہے۔ ایک گزشتہ حالت سے متعلق اور دوسرا موجودہ حالت سے۔ مگر جب تک پہلی حالت کا ذکر نہ کیا جائے، تصویر کا صرف ایک ہی رخ سامنے آتا اور دوسرا پردے میں چھپا رہتا ہے۔ چونکہ ایک رخی تصویر پورا پورا لطف و انداز نہیں دکھا سکتی، پس ہمارے نزدیک واجب ہے کہ اول اندھیرے رخ کا گھونگٹ اٹھایا جائے اور اس کے بعد رخ روشن سے آنکھیں سینکنے کا موقع دیا جائے۔ نیز اخیر میں وہ بھیانک صورت بھی دکھا دی جائے جو عنقریب پیش آنے والی اور ہمارا دل دُکھانے والی ہے۔ خدا وہ دن نہ دکھائے بلکہ ہمیں اس کے سنبھالنے کی ہمت دلائے۔

اردو زبان کی پہلی اور حال کی صورت میں زمین و آسمان کا فرق ہو گیا ہے۔ زبان کے لحاظ سے جو علم و ادب کی جڑ ہے، قبل از غدر جیسی دلکش و دلربا حالت تھی اسے انقلابِ زمانہ کے ہاتھوں نے تھپڑ لگا لگا کر اس طرح ملیا میٹ کیا جس طرح گدھے کے سر سے سینگ رفو چکر ہوئے؛ گویا خالص اور اصل اردو نام کو نہ رہی:

دیکھا وہ اپنی آ نکھ سے جو کچھ سنا نہ تھا

اور دیکھیے حزیںؔ ابھی کیا کیا دکھائے دل

فصحائے دہلی جو اہل قلعہ کے پیرو تھے، ناشاد و نامراد قبر میں جا سوئے:

ہائے کس حسرت سے شبنم نے سحر رو کر کہا


خوش رہو اے ساکنانِ باغ! اب تو ہم چلے

در حقیقت:

سامعین کا نہ فقط سننے سے دم رکتا ہے

سرگزشت ان کی جو لکھیے تو قلم رکتا ہے

جس قلعہ معلی میں اُردو زبان نے جنم لیا تھا، جہاں روز بروز نئے نئے محاورے، اصطلاحیں ایجاد و اختراع ہوتی تھیں، جس جگہ زبان کا ایک ایک لفظ خراد چڑھتا، تراش و خراش پاکر ٹکسالی بنتا تھا، وہاں تو اینٹ سے اینٹ بج کر گدھے کے ہل چل گئے۔ نہ وہ مکان رہے نہ وہ مکیں:

انقلاب دہر سے اک یہ رہے خانہ خراب

ورنہ عالم بارہا بگڑا ہے اور بن بن گیا

بقول حضرت شاہ نصیر رحمۃ اللہ علیہ:

نصیرؔ زیبِ مکاں جلوۂ مکیں سے ہے


فروغِ خانہ انگشتری نگیں سے ہے

قبل از غدر یعنی آج سے ستاون برس پیشتر جسے 1857؁ء سے تعبیر کرنا چاہیے، اس زبان کی تراش و خراش، اصلاح و درستی برابر جاری تھی۔ گویا دہلی میں ایک ماں کی دو بیٹیاں راؤ چاؤ سے پرورش پا رہی تھیں، بڑی بیٹی کا مسقط الراس قلعہ معلیٰ تھا، چھوٹی کا دلی شہر۔ مگر شہر و قلعہ کی بیگماتی زبان اور مردانہ بول چال میں بھی بڑا فرق تھا۔ عورتوں کی خاص زبان اور تھی، مردوں کی اور۔ علی ہذا القیاس شہر میں بھی اناث اور ذکور کے روز مرے میں اختلاف بلکہ بیّن فرق تھا۔ ہر محلہ کی زبان الگ، ہر کوچہ کے محاورے جدا، ہر شاعر کا تذکیر و تانیث میں اختلاف۔ مگر ایسا نہیں کہ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھ سکے یا کوئی انھیں مطعون کرے۔ قلم کو کسی نے مونث مانا، کسی نے مذکر۔ رتھ کو اہل قلعہ نے مذکر کہا تو اہل شہر نے مونث۔ نشو و نما و منشا نیز التماس ایسے الفاظ ہیں کہ دونوں طرح بولے جا سکتے ہیں جیسے فکر، بلبل، طرز، التماس۔ بعض الفاظ ایک معنی میں مونث، دوسرے میں مذکر؛ جیسے عرض بمعنی گزارش مونث و بمعنی چوڑائی مذکر۔ لب کے تین چار معنی ہیں، کسی معنی میں مذکر، کسی میں مونث بصورتِ واحد و بصورتِ جمع بولا جاتا ہے۔ مثلاً بمعنی ہونٹ، بمعنی لعاب دہن، بمعنی کنارہ مذکر ہے لیکن اخیر معنی میں مونث بھی ہے، جیسے اوڑھنی کی لب پر دھنک ٹانک دو تو اچھی معلوم دے۔ موچھ بمعنی سبلت صرف مونث جیسے لبیں بڑھ گئیں ہیں، کیا میٹھا خرپزہ نکلا کہ لبیں بند ہوتی ہیں۔

عورتوں اور مردوں کا روزمرہ تو ایک تھا مگر خاص خاص اصطلاحیں خاص انھیں کے دم سے وابستہ تھیں، مرد مطلق نہیں بولتے تھے۔اہل زبان نے لفظ ریختہ کی تانیث قرار دے کر اسی کو ریختی سے منسوب کر لیا تھا۔ مثلاً ننانواں بجائے ہیضہ، تھتکاری (1) بمعنی پاؤں کی بیڑی، جولان، زنجیر پا، سلاسل۔ (2) چڑیل، پچھلپائی۔ زمین دیکھنا بمعنی قے کرنا۔ موئی مٹی کی نشانی بمعنی زندہ یادگارِ عزیز مردہ۔ مُوا بمعنی اجل رسیدہ۔نگوڑا (1) پابُریدہ، لنگڑا، لولا، اپاہج (2) بمعنی نکما، ناکارہ، چِنڈال، بدقسمت، بدنصیب (3) عورتوں کا حقارةً تکیہ کلام۔ ناٹھا: بےزن و فرزند، بے اولادا، بے وارثا جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو۔ سیتاستی بمعنی پاک دامن و پارسا۔ ایک برایک بمعنی آزمودہ، مجرب نیز موثر وغیرہ۔

ان خاص الخاص اصطلاحوں میں توہمات، ان کے عقائد اور ہندی ریت رسم کو بھی بہت بڑا دخل تھا۔ بیگماتِ قلعہ کے نام اور زنانہ عہدے بھی شہری بیگمات سے اکثر جدا ہوتے تھے۔اُن میں ترکی و فارسی کی ترکیبیں اور الفاظ کی آمیزش زیادہ لیکن عربی اور ہندی کی برائے نام تھی۔ مثلاً آغا بیگم، زبیدہ خاتون، آغائی وغیرہ بیگمات کے ترکی نام تھے۔ ملازمت پیشہ عورتوں کے عہدے حسب ذیل جیسے قِلماقنی، جسولنی، اُردابیگنی، حبشن، تُرکن۔ علیٰ ہذا لونڈی باندیوں کے نام بھی جدا تھے جیسے گل چمن، دلشاد، دُردانہ، کاکا بمعنی معزز و کہن سال خانہ زاد۔ بیگموں کے فارسی آمیز نام مہر افروز، ارجمند بانو، دل افروز، خورشید جہاں، مریم زمانی، گیتی آرا، نور جہاں، خورشید زمانی، برجیس بیگم، انجمن آرا، روشن آرا وغیرہ۔

جب تک قلعہ آباد رہا اور اہل قلعہ بے فکری سے زندگی بسر کرتے رہے، بیگمات کی شستہ و خالص زبان بھی عجیب عجیب انوٹیں دکھاتی رہی۔ شہزادگان والاتبار، سلاطینِ عشرت پسند غفلت شعار، برائے نام بادشاہِ ہند کی درباری زبان، درباری ادب و قاعدہ، خاص و عام موقعوں کے الفاظ، شعر و اشعار کے چرچے، مہذبانہ گفتگو کے طریقے، اخلاقانہ گفت و شنید، خلوت و جلوت کی رمزیں، دل لگی کی باتیں، راگ راگنیوں کی گھاتیں اپنے اپنے موقع کا سماں باندھ کر سامعین کو محظوظ و خوش وقت کرتی رہیں۔ شاعروں، مصنفوں،واعظوں، مترجموں، ادیبوں، علمائے دین و دنیا کو انعامات، خطابات و وظائف اور ملازمت سے ممتاز فرما کر دینی و دنیاوی ترقی کا کام لیتے رہے۔ مگر افسوس علوم جدیدہ کی طرف ذرا آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ گو علم تاریخ، علم ادب، علم جغرافیہ، علم حکمت، فلسفہ، طب، ریاضی، طبیعیات میں اہل عرب نے ید طولیٰ حاصل کر لیا تھا اور بآسانی ان کے ترجموں کی کارروائی ہو گئی تھی۔ لیکن اردو زبان میں ان علوم کو لانے کی کما حقہ کوشش نہ کی گئی، کجا کہ علم سائنس، مائعات، طبقات الارض وغیرہ سے اس زبان کے خزانے کو بھرا جاتا۔ سیکڑوں علمی اصطلاحیں، علمی الفاظ اس زبان میں رنگروٹوں کی طرح بھرتی ہو جاتے۔ علوم تو علوم، مختلف فنون بھی اسی زمرے میں آ جاتے۔ اگر چہ عربی اور سنسکرت سے فارسی میں اکثر کتابوں کے ترجمے ہوئے مگر ان میں بھی عربی کی وہی اصطلاحیں قائم رہیں۔

اسی طرح ہندی بھاکا میں بھی زیادہ تر سنسکرت کے الفاظ سے بلا تغیر یا تغیر سے کام لیا گیا۔ وَیا کرن یعنی گریمر یا صرف و نحو کی اصطلاحیں سنسکرت سے بھری پڑی ہیں۔

نام کو اردو زبان نے شاہجہاں سے لے کر ابو ظفر بہادر شاہ تک تیرہ بادشاہتیں دیکھیں لیکن یہ بادشاہتیں چار کے سوا سب کی سب چند روزہ تھیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض بادشاہوں کی سلطنت تین تین اور چھ چھ مہینے سے آگے نہ بڑھی۔ چونکہ شاہجہاں کے وقت میں ایک حد تک امن و امان، رونق ملک، بہبودیٔ سلطنت، اطمینانِ خاطر رہا اور بادشاہ کو عمارات و زبانِ اردو کے رواج کا از حد شوق بڑھتا گیا، اس وجہ سے اکتیس برس تک اردو کی جڑ بندھتی اور بنیاد جمتی گئی۔ عالمگیر کو دکن کی مہمات نے چین سے نہ بیٹھنے دیا جو اس طرف پوری توجہ کرتا۔ اگر چہ 49 سال تک اس کی سلطنت قائم رہی مگر پھر بھی دل سے اِس کا سرپرست بنا رہا۔ شاہ عالم نے پانچ سال کے دَور دَورے میں بہت کچھ کیا بلکہ عالم شباب تک پہنچا دیا اور اس کے قیام، رواج، نیز ترقی میں تنزل نہ ہونے دیا۔ فرخ سیر کے شش سالہ عہد کے اخیر میں جعفر زٹلّی نے اپنے زٹل قافیہ سے اس زبان کو عوام میں خوب پھیلایا۔ شہزادۂ معظم محمد احمد شاہ خلف عالمگیر بادشاہ نے بروقتِ تخت نشینی سید جعفر زٹلی کا سکۂ سلطنت پسند فرما کر ایک لاکھ روپیہ کا انعام مع ایک زنجیر فیل مرحمت فرمایا تھا جو گھر کے دروازہ تک پہنچتے پہنچتے مساکین و فقرا کی نذر ہوا۔ جیسے تھے ویسے ہی مفلسا بیگ رہ گئے۔ البتہ محمد شاہ رنگیلے کی سلطنت میں اس زبان نے اور بھی ترقی شروع کی لیکن خاص علم موسیقی پر زیادہ عنایت رہی۔ چنانچہ محمد شاہ کی ٹوڑی جس کے شوق میں سلطنت اودھ ادھ موئی کر چھوڑی، اب تک مشہور ہے۔ یہ راگنی اسے نہایت مرغوب تھی۔ بعض چیزوں کے نام بھی اپنی رنگینیٔ طبع سے بدلے، مثلاً سنترہ کو رنگترہ محمد شاہ نے ہی قرار دیا۔ اردو دہ مجلس اسی کے عہد میں لکھی گئی۔ اس زمانہ میں رقص و سرود، رنگ رس اور عیش پرستی کا بڑا چرچا رہا۔ ہاں عالی گوہر شاہ عالم ثانی نے اس طرف پوری پوری توجہ فرمائی۔ چونکہ خود بھی شاعر تھے اور شاعرانہ مذاق رکھتے تھے، اس وجہ سے شعرا کی زیادہ خاطر و مدارات اور قدردانی فرماتے تھے۔ آفتاب آپ کا تخلص تھا۔ چار دیوان لکھ ڈالے تھے۔ نثر میں ایک ضخیم کتاب تصنیف کی تھی۔ سودا، میر، نصیر، انشا، اعظم، زار،ممنون، احسان، قاسم، فراق یہ سب آپ ہی کے زمانہ کے شاعر اور آپ ہی کی سلطنت کے مدّاح و دعاگو تھے جنھوں نے اپنے کلام اور اپنی بالغ نظری، عالی دماغی سے غضب ڈھا دیا تھا۔ غلام قادر رُہیلے کی آنکھوں میں جو ان کی سلطنت اور اقبال مندی کھٹکی، آنکھیں نکال کر ایسا سر ہوا کہ اندھا بصیر بنا کر چھوڑا، چنانچہ جیسا کیا ویسا ہی اپنی آنکھوں کے آگے پایا۔ اگر یہ ظلم اور اندھیر پیش نہ آتا تو خدا جانے اس اکیاون سال کی مدت میں اُردو زبان کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی۔ لیکن پھر بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔ اُردو تصانیف کی پہلی سیڑھی کا یہی زمانہ تھا۔ اسی صدی میں نو طرز مرصّع، آرائش محفل، باغ و بہار، قواعدِ اردو، پریم ساگر، بیتال پچیسی اور اخلاق محسنی وغیرہ بہت سی کتابوں کا ترجمہ اور بہت سی تصنیف و تالیف ہوئیں۔ خاصکر قرآن شریف کا ترجمہ، مذہبی مسائل کے رسالے بھی اردو زبان میں تحریر ہوئے اور 1835؁ء سے سرکار انگریزی نے بھی اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ 1836؁ء سے اجرائے اخبارات کا موقع بھی آ گیا۔

184٦؁ء میں دہلی کالج(١) کے استادوں، ماسٹروں، ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل صاحب نے بخیالِ ترقیٔ زبان مل جل کر ایک اردو سوسائٹی قائم کی۔ مختلف زبانوں سے مفید و عمدہ کتابوں کا ترجمہ کر کے شائع کرنا اس سوسائٹی کا دلی مقصد قرار پایا۔ چنانچہ فارسی زبان سے تزک تیموری کا ترجمہ ہوا۔ عربی سے تذکرہ شعرائے عرب اور تاریخ ابو الفداء کی تین جلدوں کا ترجمہ کیا گیا۔ طبقات الشعراء یعنی اُردو کے شعرا کا تذکرہ جسے گاریسن ڈیٹیسی(٢) فاضل فرانس نے لکھا تھا،فرنچ زبان سے ماسٹر فیلن صاحب بہادر نے بامداد مولوی کریم الدین صاحب اردو میں ترجمہ کرایا۔ اقلیدس و جبر و مقابلہ کا بھی انگریزی و عربی سے ترجمہ کیا گیا۔ مولوی امام بخش صاحب صہبائی اور مولوی احمد علی صاحب والد حکیم قاسم علی خاں صاحب بوریہ والے نے ایک اردو گریمر لکھی، لیکن مولوی امام بخش صاحب صہبائی نے اپنے قواعد اردو کے ساتھ ہندی لغات کی بھی ایک فصل شامل کر دی۔ طبیعیات کے متعلق بھی دو ایک کتابیں لکھی گئیں۔ رسالہ وجود باری، رسالہ خواب، سریع الفہم یعنی رسالہ ابتدائی حساب وغیرہ ماسٹر رام چندر صاحب نے تحریر فرمائے۔ ان کے علاوہ مولوی امام بخش صاحب صہبائی نے بہت سی کتابیں تالیف و تصنیف کیں۔ مثلاً رسالہ معما و نغز، تذکرہ گلستانِ سخن از جانب مرزا صابر ، شرح سہ نثر ظہوری، پنج رقعہ، مینابازار، حسن و عشق، حل مقامات نصیر رائے ہمدانی، قول فیصل یعنی جواب تنبیہ العارفین خان آرزو، انتخاب لا جواب یعنی مجموعہ اشعار اساتذہ، ترجمہ حدائق البلاغۃ حسب ارشاد جناب بوترس صاحب بہادر پرنسپل دہلی کالج ١٨٤٢؁ء میں اردو نظائر اور بعض ترمیم و اضافہ کے ساتھ کیا جن کا نام لکھنا طوالت سے خالی نہیں۔ یہ ہی اس زمانہ کی یادگار ہے۔ مولوی سید محمد صاحب مدرس کالج نے بھی ایک ہندی لغات موسم بہ مفتاح اللغات و کتاب عروض و قوافی، ترجمہ لیلاوتی حساب میں تیار کیا۔ علی ہذا معرفتِ طبیعی مولوی محمد باقر صاحب کی جانب سے طبع ہوئی۔ مصطلحاتِ نکہت مولفہ مرزا نیاز علی بیگ وغیرہ۔ ان کے علاوہ اور بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن کے نام ذہن سے اس وقت اتر گئے ہیں۔ غرض اس سوسائٹی کے ممبر ممد و معاون مولوی امام بخش صاحب صہبائی، مولوی کریم بخش صاحب جن کا جبر و مقابلہ مشہور ہے، فیلن صاحب، ماسٹر رام چندرصاحب، مولوی سبحان بخش صاحب، مولوی احمد علی صاحب، مولوی سید محمد صاحب، مولوی محمد باقر صاحب مالک و اڈیٹر اردو اخبار دہلی، مولوی نور محمد صاحب، مولوی مملوک علی صاحب، خان بہادر منشی ذکاء اللہ صاحب وغیرہ تھے۔

اس اردو سوسائٹی کے سکرٹری ڈاکٹر سپنجر صاحب مقرر ہوئے جن کی ان تھک محنت نے تھوڑے ہی عرصہ میں بہت کچھ کامیابی اور ترقی کر دکھائی۔ ان کے بعد کارگل صاحب پرنسپل ہوئے، بعد ازاں ٹیلر صاحب پرنسپل بنائے گئے۔ دس برس بعد انھیں کے زمانہ میں غدر ہو گیا۔ اس وقت یہ غدر علمی ترقی کا سد باب، علما و اشراف گردی کا مرکز بن گیا۔ اردو زبان کی علمی ترقی نے کچھ دنوں دم لیا اور امن و امان ہو جانے کے بعد انگریزی زبان کے ترجموں کی طرف کسی قدر توجہ مبذول ہوئی۔

معین الدین اکبر شاہ بھی پچھلی لکیر پیٹے گئے۔ شعرا اور اہل فن کی قدردانی حسب مقدور بدستور جاری رکھی۔ بہادر شاہ مغلیہ خاندان کے اخیر بادشاہ نے بیس برس کے قریب اس زبان کو خوب مانجھا۔ شاہ نصیرؔ، استاد ذوقؔ، حضرت غالبؔ، مومنؔ، میر ممنونؔ، احسانؔ ان کے زمانے میں چڑھے بڑھے رہے۔ چار ضخیم دیوان لکھے۔ خاص بھاکا زبان میں ٹھمریاں، فقیروں کی صدائیں گھڑیں اور پنجابی آمیز اردو میں بہت سے گیت لکھے۔ غزل کے مقطع میں ظفرؔ، ٹھمریوں، ہولیوں وغیرہ میں شوقؔ، رنگؔ اپنا تخلص ڈالا۔ اردو زبان کی شامت اعمال نے غدر کی افراتفری میں ان کے ہوش و حواس درست نہ رکھے۔ وہ بات کی جس سے قلعہ، ان کی قوم اور خود اجڑ گئے۔ رنگون جا کر بھی مرتے دم تک شعر گوئی کا مشغلہ نہ چھوڑا اور عجیب عجیب دردانگیز مناجاتیں ، غزلیں نیز اشعار لکھے جن میں سے سید محمود سرسید کے خلف رشید کو بہت سے یاد تھے۔

پہلے یہ زبان ہندی عربی فارسی ترکی کا مجموعہ تھا۔ اگرچہ پرتگال، فرنچ، انگریزی کے الفاظ بھی کسی قدر شامل ہو گئے تھے، مگر اردو زبان مرکب چار ہی زبانوں سے مانی گئی تھی ۔ چنانچہ مشہور ہے :

ہے زباں ایک اور چار مزے

اس کی ہر بات میں ہزار مزے

جب قدردان مٹ گئے، وہ صحبتیں درہم و برہم ہو گئیں ۔ وہ بےفکریاں خواب و خیال بن گئیں۔ اصطلاحوں کا ایجاد، محاورات کا اختراع، شیریں زبانی کا لطف، باہمی اختلاط و ارتباط کا سلسلہ بند ہو گیا۔ جن اہل قلعہ کی گودیوں میں پل رہی تھی، جن بیگمات شاہی کی زبان سے موتی بن کر پھول سے جھڑتے تھے ، پس ان کے مٹتے ہی اصلی اور ٹکسالی زبان کا انحطاط یا تنزل شروع ہو گیا اور وہی مثل پیش آئی :

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے


اے عمر رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

جو لوگ اس کے بناؤ سنگار میں لگے ہوئے تھے، جو اس کی مشّاطہ گری اختیار کرکے روز بروز اسے دلہن کی طرح کنگھی چوٹی سے آراستہ و پیراستہ کر رہے تھے، جن شاعروں میں بلبلِ ہزار داستان کے چہچہے تھے، جن کے شعر سن سن کر حاضرین مشاعرہ اچھل اچھل پڑتے تھے، جن صحبتوں میں ایک ایک بات کا سماں باندھ کر دکھا دیا جاتا تھا، جہاں بڑے بڑے عقدے حل ہوتے تھے ساتھ ہی وہ بھی چل بسے۔ جن مصنفوں سے اردو کی جان میں جان پڑتی تھی، جن جلسوں میں طبع زاد محاورات و اصطلاحات پر بحثیں ہوتی تھیں، جن میں کھوٹے کھرے محاورے پرکھے جاتے تھے، جو جلسے شاعری اور زباں کےلیے ابرِ نیساں سے کم نہ تھے وہ درہم برہم ہو گئے تو اب اردو کی دلآویز ترقی کہاں سے آسکتی ہے۔

اردو کی خدمت سب سے زیادہ شعرا نے کی۔ قلعہ معلّی کے محاورات اب عنقا ہو گئے، جیسا ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔پہلے اس میں چار مزے تھے، انگریزی مل کر پانچ ہوئے اور سچ پوچھو تو اب یہ زبان ست بجھڑی بولی بن گئی۔ خدمت گاروں کی زبان، خانساماؤں کی زبان، لشکری زبان، پنجابی زبان، قلیوں اور مزدوروں کی زبان، ٹھیکہ داروں کی زبان، عدالتی زبان، تاجروں کی زبان، پولس کی زبان، تماشا کرنے والے ایکٹروں کی زبان،وارد و صادر مسافروں کی زبان مل کر کچھ اور ہی رنگ بدل گیا۔