مرغابی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرغابی
by سرور جہاں آبادی

ڈھل گیا دن اور شبنم ہے زمیں پر قطرہ ریز
گوشۂ مغرب میں گلگوں ہے شفق سے آسماں
پڑ رہی ہیں دور تک سورج کی کرنیں زرد زرد
جا رہی ہے تو اکیلی شام کو اڑتی کہاں
دیکھتا ہے کیوں عبث صیاد سوئے آسماں
یاس کی نظروں سے تیری شوکت پرواز کو
ارغواں زار فلک کے منظر خوش رنگ نے
کر دیا ہے اور دل کش تیرے نقش ناز کو
ڈھونڈتی پھرتی ہے کیا کوئی سہانا آبشار
یا کہ سر گرم تلاش دامن دریا ہے تو
یا کسی بحر تموج خیز کی ہے جستجو
یوں سکوت شام میں کیوں آسماں پیما ہے تو
تو جو بے سنگ نشان جادہ و بے مرحلہ
کر رہی ہے آسماں پر قطع طبقات ہوا
اڑ سکے بے بدرقہ تو یہ کہاں تیری مجال
کوئی طاقت ہے مگر تیری مقرر رہنما
اے سبک پرواز! تیری سرعت پرواز نے
طے کئے کتنے ہی دن بھر سرو طبقات نسیم
ہو کے داماندہ زمیں پر گر نہ شہ پر جوڑ کر
شب کی ظلمت کا ہے گرچہ سر پہ طوفان عظیم
ہو چکی تیری مشقت ختم تجھ کو عن قریب
گرمیوں کا اک سہانا گھر ملے گا خوش گوار
گاتی ہوگی چھوٹی چڑیوں میں ہم آہنگی سے تو
اور نشیمن پر ترے ہوگی نیستاں کی بہار
ہو گئی غائب فضائے آسماں میں گرچہ تو
اور اب آنکھوں میں ہے تیرا تصور یادگار
میں نے سیکھا ہے سبق لیکن تری پرواز سے
ہے طریق زندگی میں تو مری آموز گار
منطقہ سے منطقہ تک اے سبک پرواز شوق
وسعت اوج فلک پر ہے جو تیرا راہبر
مجھ کو بھی لے جائے گا وہ منزل مقصود تک
جب کروں گا جادۂ ہستی سے میں تنہا سفر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse