مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
by محمد ابراہیم ذوق

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے

تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد رہے
نہ خدائی کی ہو پروا نہ خدا یاد رہے

لوٹتے سیکڑوں نخچیر ہیں کیا یاد رہے
چیر دو سینے میں دل کو کہ پتا یاد رہے

رات کا وعدہ ہے بندے سے اگر بندہ نواز
بند میں دے لو گرہ تا کہ ذرا یاد رہے

قاصد عاشق سودا زدہ کیا لائے جواب
جب نہ معلوم ہو گھر اور نہ پتا یاد رہے

دیکھ بھی لینا ہمیں راہ میں اور کیوں صاحب
ہم سے منہ پھیر کے جانا یہ بھلا یاد رہے

تیرے مدہوش سے کیا ہوش و خرد کی ہو امید
رات کا بھی نہ جسے کھایا ہوا یاد رہے

کشتۂ ناز کی گردن پہ چھری پھیرو جب
کاش اس وقت تمہیں نام خدا یاد رہے

خاک برباد نہ کرنا مری اس کوچے میں
تجھ سے کہہ دیتا ہوں میں باد صبا یاد رہے

گور تک آئے تو چھاتی پہ قدم بھی رکھ دو
کوئی بیدل ادھر آئے تو پتا یاد رہے

تیرا عاشق نہ ہو آسودہ بہ زیر طوبیٰ
خلد میں بھی ترے کوچے کی ہوا یاد رہے

باز آ جائیں جفا سے جو کبھی آپ تو پھر
یاد عاشق کو نہ کیجے گا بھلا یاد رہے

داغ دل پر مرے پھاہا نہیں ہے انگارا
چارہ گر لیجو نہ چٹکی سے اٹھا یاد رہے

زخم دل بولے مرے دل کے نمک خواروں سے
لو بھلا کچھ تو محبت کا مزا یاد رہے

حضرت عشق کے مکتب میں ہے تعلیم کچھ اور
یاں لکھا یاد رہے اور نہ پڑھا یاد رہے

گر حقیقت میں ہے رہنا تو نہ رکھ خود بینی
بھولے بندہ جو خودی کو تو خدا یاد رہے

عالم حسن خدائی ہے بتوں کی اے ذوقؔ
چل کے بت خانے میں بیٹھو کہ خدا یاد رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse