Jump to content

مرثیۂ سر سید ردیف ی

From Wikisource
مرثیۂ سر سید ردیف ی
by خوشی محمد ناظر
331319مرثیۂ سر سید ردیف یخوشی محمد ناظر

عرش کے نوری زمیں کے فرش پر آنے کو ہیں
اور اک خاکی کو سیر خلد دکھلانے کو ہیں
باغ جنت کو سدھارا سید عالی مقام
راہ میں اس کی ملائک نور برسانے کو ہیں
وائے حسرت چل دیا دنیا سے وہ محبوب قوم
اور جو باقی ہیں اس کے ہجر میں جانے کو ہیں
ساقیٔ مرحوم تیرے بادہ خواروں کے لیے
خون دل پینے کو اور لخت جگر کھانے کو ہیں
گلشن ملت میں غنچوں نے ابھی کھولی تھی آنکھ
ایک جھونکے سے خزاں کے اب وہ مرجھانے کو ہیں
چھپ گیا وہ روئے رخشاں مہر عالم تاب کا
اب شب یلدا کی ہر سو ظلمتیں چھانے کو ہیں
اے شاہ بے تاج وہ ماتم کی تیرے دھوم ہے
تاج داروں کے علم اس غم سے جھک جانے کو ہیں
دشت میں دوں لگ رہی ہے قیس کے ماتم میں آج
آہوان نجد کی آنکھوں میں اشک آنے کو ہیں
ایک سینے میں تھی سید کے تڑپ اسلام کی
ہم مسلماں سب برائے نام کہلانے کو ہیں
کاروان قوم کا ہنگامہ تیرے دم سے تھا
یہ نہ تھا معلوم حضرت کوچ فرمانے کو ہیں
بوسہ گاہ قوم ہوگا تیرے سنگ آستاں
نقش پا پر تیرے لاکھوں قافلے آنے کو ہیں
ہر زماں ایں رہ گزر را کاروان دیگر است
کشتگان‌ عشق را ہر لخت جان دیگر است
ہائے وہ خورشید انور چہرۂ تاباں ترا
ہائے وہ ماہ منور عارض رخشاں ترا
وہ نگاہیں جاں فزا اور وہ ادائیں دل ربا
وہ جبین دل کشا وہ دل فروز عنواں ترا
ہائے اس ریش مبارک پر وہ بارش نور کی
شام پیری میں بیاض صبح نور افشاں ترا
ہائے وہ جان بصیرت تیرا نورانی دماغ
ہائے وہ کان محبت سینۂ سوزاں ترا
وہ تری شان جلالی وہ ترا رعب‌ جمال
پڑ گئی جس پر نظر تھا بندۂ فرماں ترا
مہدی و مشتاق ہمدم شبلی و حالی ندیم
اور زین العابدیں خاصائی خاصاں ترا
بام و در کالج کے ہیں ماتم میں تیرے سر نگوں
مرثیہ خواں بن گیا ہر کاخ و ہر ایواں ترا
دل سے خشت و سنگ کے کالج میں اٹھتی ہے صدا
کیا ہوا میر عمارت خانۂ ویراں ترا
تا جہاں میں ہے ترے نانا کی امت کو بقا
قوم میں ماتم رہے گا سید احمد خاں ترا
بندہ پرور وقت رخصت یاد فرمایا نہ کیوں
ناظر مہجور تھا وابستۂ داماں ترا
اے چمن پیرائے ملت تیرے شوق دید میں
تھا نواسنج فغاں یہ بلبل بستاں ترا
سر بہ صحرا اب رہیں گے آہ دیوانے تیرے
شمع تربت کا کریں گے طوف پروانے ترے
ہائے بزم قوم میں اب جلوہ فرمائے گا کون
ماہ کے مانند ہالے میں نظر آئے گا کون
اے مسیحا قوم کے تجھ بن عظام خستہ کو
قم بہ اذنی کہہ کے اب جنبش میں پھر لائے گا کون
دیکھ کر چتون تری اٹھتے تھے دل میں ولولے
اس نگاہ گرم سے اب دل کو گرمائے گا کون
تھا ترا روئے منور ایک نجم رہنما
اب وہ نورانی فضا ظلمت میں دکھلائے گا کون
اس شعاع روح پرور سے پھر اے ماہ منیر
دل کے دریا میں وہ رقص موج دکھلائے گا کون
خانہ جنگی ہر طرف ہے معاشر اسلام میں
ہائے تجھ بن ان کے یہ الجھاؤ سلجھائے گا کون
دار و گیر دہر مثل عرصۂ شطرنج ہے
یار شاطر بن کے اس کی چال بتلائے گا کون
جھگیوں کا روپ بھر کر قوم کی اسٹیج پر
ما نمی خواہیم ننگ و نام را گائے گا کون
روٹھ کر جاتا ہے سید آؤ لیں اس کو منا
ورنہ اتنی مشکلیں آسان فرمائے گا کون
دفن کرنا صحن میں کالج کے سر سید کی لاش
اس خلیل اللہ سے کعبہ کو چھڑوائے گا کون
یوں تو لاکھوں آئیں گے اس نجد میں اور جائیں گے
سید احمد سا جنوں ساماں مگر آئے گا کون
اے حریفاں آں قدح بہ شکست و آں ساقی نماند
جرعۂ جز اشک خوں در جام ما باقی نماند
سید مرحوم امت کا بھلا کرتا رہا
فکر ملت روز و شب صبح و مسا کرتا رہا
جو فلاح قوم کی آئی سمجھ میں اس کی بات
برملا کہتا رہا اور برملا کرتا رہا
تھی اسے پرواہ تحسیں اور نہ کچھ نفریں کا ڈر
اس کو جو کرنا تھا بے رو و ریا کرتا رہا
ناسزا سنتا رہا اور مرحبا کہتا رہا
کفر کے فتووں میں کام اسلام کا کرتا رہا
گر ہوئے ناکامیوں سے حوصلے یاروں کے پست
ہمت عالی کا اپنی اقتضا کرتا رہا
قوم میں پھر تازہ ذوق بت پرستی دیکھ کر
اک نیا کعبہ علی گڑھ میں بنا کرتا رہا
اے کہ کالج کے یہ قصر و خاک و ایواں دیکھیے
کام جو شاہوں کا تھا سو یہ گدا کرتا رہا
اس نے کی اسلام اور اوہام باطل میں تمیز
زنگ سے آئینۂ دیں کی جلا کرتا رہا
کفر کے حملوں میں تھا اسلام کی دائم سپر
عالم امت یہ کار انبیا کرتا رہا
شاہد اردو کی زلفوں کے نکالے پیچ و خم
حسن کے غمزوں کو فطرت آشنا کرتا رہا
یہ چلی تھی امت مرحوم سیل غدر میں
موت کے طوفاں میں کار ناخدا کرتا رہا
زندگی سید کی تھی قلب تپاں کی زندگی
تھی جہاں کی زندگی جان جہاں کی زندگی
چھپ گیا وہ مہر تاباں بزم دوراں چھوڑ کر
مطلع امید کا تاریک عنواں چھوڑ کر
فصل گل میں وہ چلا بزم گلستاں چھوڑ کر
شاخ سارے آرزو کے گل بہ داماں چھوڑ کر
نالۂ دل دوز صحن بوستاں میں سر کیا
بلبلان زار نے درس گلستاں چھوڑ کر
آ لیا سیل فنا نے کارواں سالار کو
قافلہ کو دشت حرماں میں پریشاں چھوڑ کر
پیر کنعاں کی جدائی سے جگر ہے پاش پاش
گو چلا ہے مصر میں وہ ماہ کنعاں چھوڑ کر
سو گیا کنج لحد میں شاہ بے تاج و سریر
باغ و راغ و بارگاہ و قصر و ایواں چھوڑ کر
فیض سے تیرے رہی وابستہ حاصل کی امید
تشنہ لب کہتی نہ جائے ابر نیساں چھوڑ کر
یہ تو بتلا دے کہ ہے کس کا سہارا قوم کو
کعبۂ دل قبلۂ جاں تیرا داماں چھوڑ کر
کون ہوگا مرد میداں اب مصاف دہر کا
ہاتھ میں کس کے چلا ہے گو وہ چوگاں چھوڑ کر
بندہ پرور یہ جنون عشق کے شایاں نہ تھا
سیر گلزار ارم خار مغیلاں چھوڑ کر
گاہے گاہے قوم کی حالت پہ بھی کرنا نظر
سیر جنت چھوڑ کر گل گشت رضواں چھوڑ کر
اس چمن میں روح منڈلاتی رہے گی آپ کی
جائے گی بلبل کہاں بزم گلستاں چھوڑ کر
دار فانی کی ہے ناظرؔ گرچہ فانی زندگی
کشتگان‌ عشق کی ہے جاودانی زندگی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.