مرثیۂ دہلی مرحوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرثیۂ دہلی مرحوم
by الطاف حسین حالی

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانا ہرگز
داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے بلبل
ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز
ڈھونڈھتا ہے دل شوریدہ بہانے مطرب
دردانگیز غزل کوئی نہ گانا ہرگز
صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز
لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز
چپہ چپہ پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
وہ تو بھولے تھے ہمیں ہم بھی انہیں بھول گئے
ایسا بدلا ہے نہ بدلے گا زمانا ہرگز
جس کو زخموں سے حوادث کے اچھوتا سمجھیں
نظر آتا نہیں اک ایسا گھرانا ہرگز
ہم کو گر تو نے رلایا تو رلایا اے چرخ
ہم پہ غیروں کو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز
آخری دور میں بھی تجھ کو قسم ہے ساقی
بھر کے اک جام نہ پیاسوں کو پلانا ہرگز
بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دور زماں
نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز
کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز
غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ
اب دکھائے گا نہ شکلوں کو زمانا ہرگز
مومنؔ و علویؔ و صہبائیؔ و ممنونؔ کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
داغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانا ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانہ ہرگز
بزم ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse