مرا یہ زخم سینہ کا کہیں بھرتا ہے سینے سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا یہ زخم سینہ کا کہیں بھرتا ہے سینے سے
by سردار گینڈا سنگھ مشرقی

مرا یہ زخم سینہ کا کہیں بھرتا ہے سینے سے
لگائے اے صنم جب تک نہ تو سینہ کو سینے سے

فلک نے شادماں دیکھا جسے آیا اسی کے سر
خدا محفوظ ہر انساں کو رکھے اس کمینے سے

جو لے جاتے ہیں دل میرا بچانا ٹھیس سے اس کو
وہ ہے اے سنگ دل نازک زیادہ آبگینے سے

نہ ہوگی دور غش میری گلاب و مشک و عنبر سے
مرے رخ کو تو دھو اے گل بدن اپنے پسینے سے

کہیں یہ صاف ہوتا ہے کدورت اور کینے سے
اگر زخم جگر مل بھی گیا دشمن کے سینے سے

دل اک دہنے رہا گر دوسرا دائم رہا بائیں
نہ دو باہم ہوئے دل گو ملا سینہ بھی سینے سے

کوئی رنج و الم آئے نہ دل کے پاس اے ساقی
جو ہو آغاز مے نوشی محرم کے مہینے سے

تو چاہے دوسروں کو اور ہم مرتے پھریں تجھ پر
ہمارے واسطے مرنا ہے بہتر ایسے جینے سے

سمجھنا چاہیے کینے سے سینہ ہے بھرا اس کا
کیا ہے مشرقیؔ انکار جس نے مے کے پینے سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse