مرا راز دل آشکارا نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا راز دل آشکارا نہیں
by میر انیس

مرا راز دل آشکارا نہیں
وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں

وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ
وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں

وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور
وہ آتش ہوں جس میں شرارہ نہیں

بہت زال دنیا نے دیں بازیاں
میں وہ نوجواں ہوں جو ہارا نہیں

جہنم سے ہم بے قراروں کو کیا
جو آتش پہ ٹھہرے وہ پارا نہیں

فقیروں کی مجلس ہے سب سے جدا
امیروں کا یاں تک گزارا نہیں

سکندر کی خاطر بھی ہے سد باب
جو دارا بھی ہو تو مدارا نہیں

کسی نے تری طرح سے اے انیسؔ
عروس سخن کو سنوارا نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse