مرا دل ہے مشتاق اس گل بدن کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا دل ہے مشتاق اس گل بدن کا
by نظیر اکبر آبادی

مرا دل ہے مشتاق اس گل بدن کا
کہ یہ باغ اک گل ہے جس کے چمن کا

وہی زلف ہے جس کی نکہت سے اب تک
پڑا خون سوکھے ہے مشک ختن کا

وہی لعل لب ہے کہ حسرت سے جس کے
جگر آج تک خوں ہے لعل یمن کا

عجب سیر دیکھی نظیرؔ اس چمن کی
ابھی وصل تھا نرگس و نسترن کا

ابھی یک دگر جمع تھے سنبل و گل
ابھی تھا بہم جوش سرو و سمن کا

ابھی چہچہے بلبلوں کے عیاں تھے
ابھی شور تھا قمریٔ نعرہ زن کا

گھڑی بھر کے ہی بعد دیکھا یہ عالم
کہ نام و نشاں بھی نہ واں تھا چمن کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse