مرا دل دیکھو اب یا میرے دشمن کا جگر دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا دل دیکھو اب یا میرے دشمن کا جگر دیکھو
by نوح ناروی

مرا دل دیکھو اب یا میرے دشمن کا جگر دیکھو
تمہارے بس میں آنکھیں ہیں جدھر جاؤ ادھر دیکھو

قیامت میں نہ میرے منہ سے پھر فریاد نکلے گی
اگر یہ کہہ دیا اس نے یہاں آؤ ادھر دیکھو

تمہارے نام پر مر مٹنے والا کون ہے میں ہوں
اگر سوچو اگر سمجھو اگر مانو اگر دیکھو

مرے دل کو چرا کر پھر چراؤ آنکھ کیا معنی
نگاہ قہر ہی سے تم مجھے دیکھو مگر دیکھو

جو کہتا ہوں فنا کے بعد سب کو چین ملتا ہے
تو وہ کہتے ہیں پھر اب دیر کیا تم بھی مر دیکھو

رقیبوں کو تم آنکھیں تو دکھاتے ہو سر محفل
کہیں ایسا نہ ہو بن جائے میری جان پر دیکھو

کسی کو دیکھ کر اے نوحؔ کیسی کچھ بنی دل پر
یہ کس کمبخت نے تم سے کہا تھا تم ادھر دیکھو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse