مرا دل داد خواہ ظلم اصلاً ہو نہیں سکتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا دل داد خواہ ظلم اصلاً ہو نہیں سکتا
by ثاقب لکھنوی

مرا دل داد خواہ ظلم اصلاً ہو نہیں سکتا
مروت منہ کو سی دیتی ہے شکوا ہو نہیں سکتا

چھپاؤ آپ کو جس رنگ یا جس بھیس میں چاہو
مگر چشم حقیقت بیں سے پردا ہو نہیں سکتا

تماشا گاہ حیرت ہے دیار دل کی ویرانی
یہ سناٹا میان دشت و صحرا ہو نہیں سکتا

بڑھا ایک اور غم افشائے راز عشق سے ورنہ
نہ میں کھلتا نہ وہ کہتے کہ ایسا ہو نہیں سکتا

مرے ظلمت کدہ میں روز روشن کا گزر کیسا
سلامت ہے شب غم تو اجالا ہو نہیں سکتا

دم عہد و وفا ٹھہرا نہ ان کے سامنے کوئی
سوا میرے تو میں کس دل سے کہتا ہو نہیں سکتا

کبھی کج‌ طبع کو دیکھا نہ سیدھی راہ پر آتے
جو ہے دراصل بد باطن وہ اچھا ہو نہیں سکتا

نہ ہوں سنگ در مے خانہ اہل زہد اے ثاقبؔ
کہ میں پابند رسم و راہ تقویٰ ہو نہیں سکتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse