مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے
by تاباں عبد الحی

مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے
کہ ہر جلوے میں اس کے کیا کہوں اور ہی جھمکا ہے

نہیں ہونے کا چنگا گر سلیمانی لگے مرہم
ہمارے دل پہ کاری زخم اس ناوک پلک کا ہے

کئی باری بنا ہو جس کی پھر کہتے ہیں ٹوٹے گا
یہ حرمت جس کی ہو اے شیخ کیا تیرا وہ مکا ہے

ہر اک دل کے تئیں لے کر وہ چنچل بھاگ جاتا ہے
ستم گر ہے جفا جو ہے شرابی ہے اچکا ہے

نہ جا واعظ کی باتوں پر ہمیشہ مے کو پی تاباںؔ
عبث ڈرتا ہے تو دوزخ سے اک شرعی درکا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.