مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لے جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لے جانا
by نظیر اکبر آبادی

مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لے جانا
کسی صورت سے واں تک تم مرا مذکور لے جانا

اگر وہ شعلہ رو پوچھے مرے دل کے پھپھولوں کو
تو اس کے سامنے اک خوشۂ انگور لے جانا

جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اس کے رنگ پر زردی
تو یارو تم گل صد برگ یا کافور لے جانا

اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو
کہیں سے ڈھونڈھ کر اک خانۂ زنبور لے جانا

رقیب رو سیہ کے حال کا گر ماجرا پوچھے
تو اس کے سامنے جنگل سے اک لنگور لے جانا

نظیرؔ اک دن خوشی سے یار نے ہنس کر کہا مجھ کو
کہ تو بھی ایک بوسہ ہم سے اے رنجور لے جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse