مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لے جانا
Appearance
مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لے جانا
کسی صورت سے واں تک تم مرا مذکور لے جانا
اگر وہ شعلہ رو پوچھے مرے دل کے پھپھولوں کو
تو اس کے سامنے اک خوشۂ انگور لے جانا
جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اس کے رنگ پر زردی
تو یارو تم گل صد برگ یا کافور لے جانا
اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو
کہیں سے ڈھونڈھ کر اک خانۂ زنبور لے جانا
رقیب رو سیہ کے حال کا گر ماجرا پوچھے
تو اس کے سامنے جنگل سے اک لنگور لے جانا
نظیرؔ اک دن خوشی سے یار نے ہنس کر کہا مجھ کو
کہ تو بھی ایک بوسہ ہم سے اے رنجور لے جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |