مرا اس کے پس دیوار گھر ہوتا تو کیا ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرا اس کے پس دیوار گھر ہوتا تو کیا ہوتا
by غمگین دہلوی

مرا اس کے پس دیوار گھر ہوتا تو کیا ہوتا
قضا سے اے فلک گر اس قدر ہوتا تو کیا ہوتا

جنازہ پر مرے اس شوخ کو لایا ہے تو آخر
اگر اے عشق کچھ تجھ میں اثر ہوتا تو کیا ہوتا

ہوا بے ہوش بالکل آہ اس کی آمد آمد میں
گر آنے سے میں اس کے با خبر ہوتا تو کیا ہوتا

اسی عالم میں ہیں یہ لطف اے دل عشق بازی کے
اگر باغ جناں میں بو البشر ہوتا تو کیا ہوتا

تجلی تو ہوئی موسیٰ کو پر میری طرح واعظ
ہمیشہ جلوہ گر ہر اک شجر ہوتا تو کیا ہوتا

ہنر مندوں کو تیرے ہاتھ سے ہے زندگی مشکل
جو تجھ میں بھی کوئی اے دل ہنر ہوتا تو کیا ہوتا

کیا بد نام اک عالم نے غمگیںؔ پاک بازی میں
جو میں تیری طرح سے بد نظر ہوتا تو کیا ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse