مذہب کا ہو کیوں کر علم و عمل دل ہی نہیں بھائی ایک طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مذہب کا ہو کیوں کر علم و عمل دل ہی نہیں بھائی ایک طرف
by اکبر الہ آبادی

مذہب کا ہو کیوں کر علم و عمل دل ہی نہیں بھائی ایک طرف
کرکٹ کی کھلائی ایک طرف کالج کی پڑھائی ایک طرف

کیا ذوق عبادت ہو ان کو جو بس کے لبوں کے شیدا ہیں
حلوائے بہشتی ایک طرف ہوٹل کی مٹھائی ایک طرف

طاعون و تپ اور کھٹمل مچھر سب کچھ ہے یہ پیدا کیچڑ سے
بمبے کی روانی ایک طرف اور ساری صفائی ایک طرف

مذہب کا تو دم وہ بھرتے ہیں بے پردہ بتوں کو کرتے ہیں
اسلام کا دعویٰ ایک طرف یہ کافر ادائی ایک طرف

ہر سمت تو ہے ایک دام بلا رہ سکتے ہیں خوش کس طرح بھلا
اغیار کی کاوش ایک طرف آپس کی لڑائی ایک طرف

کیا کام چلے کیا رنگ جمے کیا بات بنے کون اس کی سنے
ہے اکبرؔ بیکس ایک طرف اور ساری خدائی ایک طرف

فریاد کئے جا اے اکبرؔ کچھ ہو ہی رہے گا آخر کار
اللہ سے توبہ ایک طرف صاحب کی دہائی ایک طرف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse