مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں
by منشی بہاری لال مشتاق دہلوی

مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں
کیا کہوں تم سے کہ کہنے میں دل زار نہیں

اس میں کیا ذلت یوسف سر بازار نہیں
سامنے تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

ہو گیا آج سے بس علم قیافہ باطل
سادگی سے یہ کھلا تھا کہ ستم گار نہیں

سب طرح سے تو وہ اچھے ہیں پر اچھے کیا ہیں
اک یہی عیب ہے کیسا کہ وفادار نہیں

طلب بوسۂ رخسار کو جانے دیجے
کون سی بات ہے جس میں تمہیں انکار نہیں

یاں یہ منظور کہ مطلب کو زباں پر لائیں
واں ہے انگشت لبوں پر کہ خبردار نہیں

پوچھتے پوچھتے آ جاؤ میرے گھر کی طرف
ہے پتہ یہ کہ نشان در و دیوار نہیں

میرے رونے پہ وہ ہنس ہنس کے یہ کہنا تیرا
کہ تنک ظرف سے چھپتے کبھی اسرار نہیں

کوئی پس جائے کہ کٹ جائے بلا سے ان کی
کچھ خبر ان کو کسی کی دم رفتار نہیں

تار انفاس ہیں سینے کے نمایاں ورنہ
دیکھنے کو بھی گریباں میں کوئی تار نہیں

سچ تو یہ ہے کہ ہے مشتاقؔ عدو سے اچھا
ورنہ بندہ تو کسی کا بھی طرف دار نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.