مدت کے بعد منہ سے لگی ہے جو چھوٹ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مدت کے بعد منہ سے لگی ہے جو چھوٹ کر
by جلالؔ لکھنوی

مدت کے بعد منہ سے لگی ہے جو چھوٹ کر
تو یہ بھی مے پہ گرتی ہے کیا ٹوٹ ٹوٹ کر

مہندی تھا میرا خون کہ ہوتا جو رائیگاں
اک شب کے بعد ہاتھ سے قاتل کے چھوٹ کر

پہلا ہی دن تھا ہم کو کیے ترک مے کشی
کیا کیا پڑا ہے رات کو مینہ ٹوٹ ٹوٹ کر

صبر و قرار لے کے دیا داغ آرزو
آباد تم نے دل کو کیا مجھ کو لوٹ کر

حیرت ہے میرے اختر بخت سیاہ کو
کیوں کر گہن سے چاند نکلتا ہے چھوٹ کر

اللہ رے آنسوؤں کا کھٹکنا فراق میں
آنکھوں میں بھر گیا کوئی الماس کوٹ کر

ٹپکے نہیں قلم کے فقط اشک نامہ پر
وہ کچھ لکھا کہ روئی سیاہی بھی پھوٹ کر

کر بند و بست ابھی سے نہ گلشن میں باغباں
وہ دن تو ہو کہ مرغ قفس آئیں چھوٹ کر

صد حیف سرگذشت جو اپنی کہی جلالؔ
تو اس کو داستان سمجھ سچ کو جھوٹ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse