مخمور چشموں کی تبرید کرنے کوں شبنم ہے سرداب شوروں کی مانند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مخمور چشموں کی تبرید کرنے کوں شبنم ہے سرداب شوروں کی مانند
by سراج اورنگ آبادی

مخمور چشموں کی تبرید کرنے کوں شبنم ہے سرداب شوروں کی مانند
روپے کے تھالے سفیدی ہے نرگس کی زردی ہے زر کے کٹوروں کی مانند

دارائی سرخ ان جامہ زیبوں نے عاشق کے لوہو سے رنگیں کئے ہیں
بے خود ہو کہتا ہوں کیا خوب لگتے ہیں میرے کلیجے کے قوروں کی مانند

اے دست مشاطہ توں جب سیں پہونچا ہے اس زلف مشکیں کی شانہ کشی کوں
عاشق کی آہوں کے ان صاف رشتوں میں گرہاں ہیں انگلی کی پوروں کی مانند

یہ تنگی انہوں کے دہن کی نہ پاوے گا اپنے گریباں میں سر کو نوا توں
اے غنچہ باغی ہو مہتاب رویوں سیں مت خندہ پن کر چکوروں کی مانند

دل کے خزانے سیں شاید لیجاوے گا جی کے جواہر کوں عیاریوں سیں
ہر دم خیال اوس کا آنکھوں کے روزن سیں آتا ہے چھپ چھپ کہ چوروں کی مانند

غم کے پہاڑوں کوں سر پر اٹھائے ہیں وحشت کے پنجوں سیں آہوں نے میری
دل کے اکھاڑے میں اب کون ہم سر ہے ان پہلوانوں کے زوروں کی مانند

پروانہ رنگوں کے عرس جدائی میں سیر چراغاں ہے جان سراجؔ آج
روشن فتیلے ہیں آہوں کے شعلوں کے سینے میں کورے سکوروں کی مانند

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse