مخمور چشموں کی تبرید کرنے کوں شبنم ہے سرداب شوروں کی مانند
مخمور چشموں کی تبرید کرنے کوں شبنم ہے سرداب شوروں کی مانند
روپے کے تھالے سفیدی ہے نرگس کی زردی ہے زر کے کٹوروں کی مانند
دارائی سرخ ان جامہ زیبوں نے عاشق کے لوہو سے رنگیں کئے ہیں
بے خود ہو کہتا ہوں کیا خوب لگتے ہیں میرے کلیجے کے قوروں کی مانند
اے دست مشاطہ توں جب سیں پہونچا ہے اس زلف مشکیں کی شانہ کشی کوں
عاشق کی آہوں کے ان صاف رشتوں میں گرہاں ہیں انگلی کی پوروں کی مانند
یہ تنگی انہوں کے دہن کی نہ پاوے گا اپنے گریباں میں سر کو نوا توں
اے غنچہ باغی ہو مہتاب رویوں سیں مت خندہ پن کر چکوروں کی مانند
دل کے خزانے سیں شاید لیجاوے گا جی کے جواہر کوں عیاریوں سیں
ہر دم خیال اوس کا آنکھوں کے روزن سیں آتا ہے چھپ چھپ کہ چوروں کی مانند
غم کے پہاڑوں کوں سر پر اٹھائے ہیں وحشت کے پنجوں سیں آہوں نے میری
دل کے اکھاڑے میں اب کون ہم سر ہے ان پہلوانوں کے زوروں کی مانند
پروانہ رنگوں کے عرس جدائی میں سیر چراغاں ہے جان سراجؔ آج
روشن فتیلے ہیں آہوں کے شعلوں کے سینے میں کورے سکوروں کی مانند
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |