مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے
by مضطر خیرآبادی

مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے
ادھر کچھ اور کہتی ہے ادھر کچھ اور کہتی ہے

نہ تو دشمن کے گھر سویا نہ تو دشمن کے گھر جاگا
یہ سب سچ ہے تری صورت مگر کچھ اور کہتی ہے

ادھر مد نظر ان کو چھپانا راز الفت کا
ادھر کمبخت میری چشم تر کچھ اور کہتی ہے

تصور دل میں شاید آ گیا ہے گھر کے جانے کا
یہ انگڑائی تری وقت سحر کچھ اور کہتی ہے

نہیں معلوم مضطرؔ مر گیا یا سانس باقی ہے
الٰہی خیر شکل چارہ گر کچھ اور کہتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse