محو ہوں میں جو اس ستمگر کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
by مصطفٰی خان شیفتہ

محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا

حال لکھتا ہوں جانِ مضطر کا
رگِ بسمل ہے تار مسطر کا

آنکھ پھرنے سے تیری، مجھ کو ہوا
گردشِ دہر دور ساغر کا

شعلہ رو یار، شعلہ رنگ شراب
کام یاں کیا ہے دامنِ تر کا

شوق کو آج بے قراری ہے
اور وعدہ ہے روزِ محشر کا

نقشِ تسخیرِ غیر کو اس نے
خوں لیا تو مرے کبوتر کا

میری ناکامی سے فلک کو حصول؟
کام ہے یہ اُسی ستم گر کا

اُس نے عاشق لکھا عدو کو لقب
ہائے لکھا مرے مقدر کا

آپ سے لحظہ لحظہ جاتے ہو
شیفتہ ہے خیال کس گھر کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse