محو رخ یار ہو گئے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محو رخ یار ہو گئے ہم
by میر محمدی بیدار

محو رخ یار ہو گئے ہم
سو جی سے نثار ہو گئے ہم

فتراک سے باندھ خواہ مت باندھ
اب تیرے شکار ہو گئے ہم

دامن کو نہ پہنچے تیرے اب تک
ہر چند غبار ہو گئے ہم

آتا نہیں کوئی اب نظر میں
کس سے یہ دو چار ہو گئے ہم

تھا کون کہ دیکھتے ہی جس کے
یوں عاشق زار ہو گئے ہم

ہستی ہی حجاب تھی جو دیکھا
اس بحر سے پار ہو گئے ہم

بیدارؔ سرشک لالہ گوں سے
ہم چشم بہار ہو گئے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse