محو ایسا تری صورت میں ہے شیدا تیرا
Appearance
محو ایسا تری صورت میں ہے شیدا تیرا
دیکھتا ہے وہ ہر اک شکل میں جلوہ تیرا
ہے جو کچھ عالم فانی میں وہ سب تیرا ہے
جب سے ہم بولے یہی بولے کہ تیرا تیرا
تو کہیں ہو میں تجھے ڈھونڈ نکالوں گا ضرور
تو ہے مطلوب مرا اور میں جویا تیرا
تیری تصویر میں اے جاں نظر آئی مری شکل
میری صورت میں نظر آیا جلوہ تیرا
چاک دامانیٔ عاشق نے غضب کر ڈالا
اے مرے پردہ نشیں کھل گیا پردہ تیرا
دل بھی روشن ترے جلوے سے ہے اور آنکھیں بھی
ہر جگہ نور نئی شان سے چمکا تیرا
تو ہو جس رنگ میں پہچانتا ہوں میں تجھ کو
کبھی دھوکا نہیں کھاتا ہے شناسا تیرا
آئنہ ہے یہ اسی میں نظر آئے گی وہ شکل
دیکھ اے طالب حق دل ہو نہ میلا تیرا
نام گنوانے کو یوں تو ہیں بہت اہل نظر
مری جاں پر ترا اکبرؔ ہی ہے شیدا تیرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |