محنت کرو
ہے امتحاں سر پر کھڑا محنت کرو محنت کرو
باندھو کمر بیٹھے ہو کیا محنت کرو محنت کرو
بے شک پڑھائی ہے سوا اور وقت ہے تھوڑا رہا
ہے ایسی مشکل بات کیا محنت کرو محنت کرو
شکوے شکایت جو کہ تھے تم نے کہے ہم نے سنے
جو کچھ ہوا اچھا ہوا محنت کرو محنت کرو
محنت کرو انعام لو انعام پر اکرام لو
جو چاہو گے مل جائے گا محنت کرو محنت کرو
جو بیٹھ جائیں ہار کر کہہ دو انہیں للکار کر
ہمت کا کوڑا مار کر محنت کرو محنت کرو
تدبیریں ساری کر چکے باتوں کے دریا بہہ چکے
بک بک سے اب کیا فائدہ محنت کرو محنت کرو
یہ بیج اگر ڈالوگے تم دل سے اسے پا لو گے تم
دیکھو گے پھر اس کا مزا محنت کرو محنت کرو
محنت جو کی جی توڑ کر ہر شوق سے منہ موڑ کر
کر دو گے دم میں فیصلہ محنت کرو محنت کرو
کھیتی ہو یا سوداگری ہو بھیک ہو یا چاکری
سب کا سبق یکساں سنا محنت کرو محنت کرو
جس دن بڑے تم ہو گئے دنیا کے دھندوں میں پھنسے
پڑھنے کی پھر فرصت کجا محنت کرو محنت کرو
بچپن رہا کس کا بھلا انجام کو سوچو ذرا
یہ تو کہو کھاؤ گے کیا محنت کرو محنت کرو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |