محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے
ہے وہ ملکہ کہ سبکبار اٹھے اور بیٹھے

رقص میں جب کہ وہ طرار اٹھے اور بیٹھے
بے قراری سے یہ بیمار اٹھے اور بیٹھے

کثرت خلق وہ محفل میں ہے تیری اک شخص
نہیں ممکن ہے کہ یکبار اٹھے اور بیٹھے

سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں دیتا ہے ہمیں
چو حباب سر جو یار اٹھے اور بیٹھے

خوف بدنامی سے تجھ پاس نہ آئے ورنہ
ہم کئی بار سن اے یار اٹھے اور بیٹھے

درد کیوں بیٹھے بٹھائے ترے سر میں اٹھا
کہ قلق سے ترے سو بار اٹھے اور بیٹھے

تیری دیوار تو کیا گنبد دوار بھی یار
چاہئے آہ شرربار اٹھے اور بیٹھے

آپ کی مجلس عالی میں علی الرغم رقیب
بہ اجازت یہ گنہ گار اٹھے اور بیٹھے

آپ سے اب تو اس احقر کو سروکار نہیں
جس جگہ چاہئے سرکار اٹھے اور بیٹھے

حضرت دل سپر داغ جنوں کو لے کر
یوں بر عشق جگر خوار اٹھے اور بیٹھے

چوں دلیرانہ کوئی منہ پہ سپر کو لے کر
شیر خونخوار کو للکار اٹھے اور بیٹھے

کفش دوز ان کے جب اپنے ہی برابر بیٹھیں
ایسی مجلس میں تو پیزار اٹھے اور بیٹھے

زاہد آیا تو گوارا نہیں رندوں ہم کو
اپنی اس بزم میں مکار اٹھے اور بیٹھے

دونوں کانوں کو پکڑ کر یہی ہے اس کی سزا
کہہ دو سو بار یہ عیار اٹھے اور بیٹھے

بیٹھتے اٹھتے اسی طرح کے لکھ اور غزل
جس میں احساںؔ ہو نہ پیکار اٹھے اور بیٹھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse