محفل سے اٹھانے کے سزا وار ہمیں تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محفل سے اٹھانے کے سزا وار ہمیں تھے
by تعشق لکھنوی

محفل سے اٹھانے کے سزا وار ہمیں تھے
سب پھول ترے باغ تھے اک خار ہمیں تھے

ہم کس کو دکھاتے شب فرقت کی اداسی
سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے

سودا تری زلفوں کا گیا ساتھ ہمارے
مر کر بھی نہ چھوٹے وہ گرفتار ہمیں تھے

کل رات کو دیکھا تھا جسے خواب میں تم نے
رخسار پہ رکھے ہوئے رخسار ہمیں تھے

دل سوختہ تھے چاہنے والوں میں تمہارے
لیکن سبب گرمئ بازار ہمیں تھے

کل کوچۂ قاتل میں جو تھا خلق کا مجمع
کھائے ہوئے اس ہاتھ کی تلوار ہمیں تھے

اے عشق مژہ کون ہمیں دیکھنے آتا
آنکھوں میں کھٹکتے تھے وہ بیمار ہمیں تھے

تربت میں بھی آنکھیں نہ ہوئیں بند ہماری
ایسے ترے اک طالب دیدار ہمیں تھے

ٹھنڈے کئے غیروں کے دل اور ہم کو جلایا
اک تھے تو محبت کے گنہ گار ہمیں تھے

ملتے ہی لب یار سے لب دل نکل آیا
مارا جسے عیسیٰ نے وہ بیمار ہمیں تھے

تم غیروں سے ڈر ڈر کے لپٹ جاتے تھے پیہم
کل رات کو نالاں پس دیوار ہمیں تھے

سب راز تعشقؔ سے بیاں ہوتے تھے دل کے
پہلے ترے اک محرم اسرار ہمیں تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse