محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا
by ظریف لکھنوی

محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا
نالہ ہنگامہ نوازی پہ سر شام آیا

مہر از روئے معلی جو لب بام آیا
دیکھیے دیکھیے اب دھوپ گئی گھام آیا

برق کی شعلہ نوازی سبب طول حیات
فطرت موت تری زیست کا ہنگام آیا

منتشر ہو گئے جس وقت سب اجزائے حیات
قطرہ دریا میں بہ اندازۂ انجام آیا

توسن عمر گریزاں کی سبک رفتاری
کام دیتی نہیں جب موت کا پیغام آیا

مرکز روح یہ ہے کشمکش موت و حیات
پھر بھی وارفتگئ شوق پہ الزام آیا

میں وہ آسودۂ سوز خلش مژگاں ہوں
جس کو راہ طلب شوق میں آرام آیا

طور سے اک کشش مشق تھی صورت گر شوق
تجھ پر اے وادیٔ ایمن عبث الزام آیا

سرد مہری سے کسی کو جو ہوئی حاجت غسل
گرم جوشی کو بغل میں لیے حمام آیا

زلف کے جال میں معشوق کا سر ہے خود بھی
قیدیوں مژدہ کہ صیاد تہ دام آیا

قبر سے راستہ سیدھا ہے خدا کے گھر کا
جو ادھر جانے لگا باندھ کے احرام آیا

ہے اگر نام اسی کا ادبیات لطیف
تو ظریفؔ اس کو کہیں کیا جسے یہ کام آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse