محرم کے ستارے ٹوٹتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محرم کے ستارے ٹوٹتے ہیں
by امداد علی بحر

محرم کے ستارے ٹوٹتے ہیں
پستان کے انار چھوٹتے ہیں

دل پر ہے وہ صدمۂ جدائی
گھڑیال بھی سینہ کوٹتے ہیں

کوئی تو متاع دل کو پوچھے
آباد رہیں جا لوٹتے ہیں

آنکھوں کو بہائے گا یہ رونا
دریا میں چراغ چھوٹتے ہیں

طے کس سے ہو وادئ محبت
چلتے ہوئے پاؤں ٹوٹتے ہیں

کس کے گالوں سے ہمسری کیے
سونے کے ورق کو کوٹتے ہیں

یہ دل اسے مفت بھی ہے مہنگا
ہم خوش ہیں کی سستے چھوٹتے ہیں

رندوں نے دیا جو سانہ اپنا
ساقی کی دکان لوٹتے ہیں

کیا شکوہ سنگ کو دکان بحرؔ
ہم پر تو پہاڑ ٹوٹتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.