محبوب خدا نے تجھے نایاب بنایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبوب خدا نے تجھے نایاب بنایا
by امداد علی بحر

محبوب خدا نے تجھے نایاب بنایا
قد سرو کیا رخ گل مہتاب بنایا

جب کچھ نہ بنی عشق نے بیتاب بنایا
خود بن گیا شعلہ مجھے سیماب بنایا

اس حسن کے دریا نے جو پھر کر مجھے دیکھا
موج قدم ناز کو گرداب بنایا

سرمست شہادت ہیں ترے عشق میں ساقی
آب دم خنجر کو مئے ناب بنایا

آگاہ کیا عشق نے قانون وفا سے
جب ناخن شمشیر کو مضراب بنایا

سب عضو بدن شمع صفت بہہ گئے گل کر
اس سوزش دل نے مجھے سیلاب بنایا

اک رات اڑائی نہ مری دختر رز سے
ساقی نے بط مے کو بھی سرخاب بنایا

جسم ایسا دمکتا ہے کہ کپڑے چمک اٹھے
نینو کو ترے حسن نے کمخواب بنایا

کب طالب راحت ہوئے زخمیٔ محبت
مرہم کی جو حاجت ہوئی تیزاب بنایا

عارض نے کیا سر بہ زمیں سارے گلوں کو
قامت نے ہر اک شاخ کو محراب بنیا

اے بحرؔ بر و بحر میں گردش رہے ہم کو
قسمت نے بگولا تجھے گرداب بنایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse